پنجابی ریاست جب یہ کہتی ہے کہ “بلوچستان ہمارے ماتھے کا جھومر ہے” تو یہ محض ایک نمائشی بیان ہے۔ حقیقت میں، پنجابی ریاست نے بلوچستان اور اس کی وادیوں و پہاڑوں کو ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔ جب بھی کوئی نیا ہتھیار یا فوجی ٹیکنالوجی تیار کی جاتی ہے، تو اس کی آزمائش کے لیے بلوچستان کی سرزمین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان تجربات کی کامیابی پر ریاست جشن مناتی ہے، جبکہ بلوچستان میں بیماریوں، آلودگی اور خوف کی نئی لہر جنم لیتی ہے۔

ریاستی ادارے، بالخصوص خفیہ ایجنسیاں، بلوچ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے رات کے اندھیرے میں اٹھا کر غائب کر دیتی ہیں۔ انہیں غیر قانونی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور پھر چند دن بعد ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کو زبردستی بیانات پر دستخط کروائے جاتے ہیں کہ مقتول دہشتگرد تھا۔ پُرامن احتجاج میں ریاستی فورسز نہتے بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر گولیاں برساتے ہیں، اور انہیں جیلوں میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پھر بھی ریاست دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچستان اس کا فخر ہے اور ریاست ماں ہوتی ہے۔

بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال خطہ ہے، مگر افسوس کہ یہاں کے لوگ غربت، بے روزگاری، اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ جہاں دولت زمین کے نیچے دفن ہے، وہاں زمین کے اوپر لوگ روٹی کو ترستے ہیں۔ پاکستان میں انصاف اور انسانی حقوق کی بات کرنا ایک جرم بن چکا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی جاری ہے۔ جو بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، اسے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسی بہادر خواتین، جو بلوچ عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف سرگرم ہیں، انہیں اور ان کے ساتھیوں کو محض اس لیے قید کیا گیا ہے کہ وہ سچ بولتی ہیں۔ ان کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست اپنے مظالم کو عالمی دنیا سے چھپانا چاہتی ہے۔

ریاستِ پاکستان( پنجابی ریاست) بین الاقوامی برادری میں جا کر دعویٰ کرتی ہے کہ اسے دہشتگردی کا سامنا ہے اور اسے مالی امداد کی ضرورت ہے، جبکہ خود اپنے ہی شہریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ انسانی حقوق، آزادیِ اظہار اور جمہوری اقدار ریاست کے ایجنڈے میں کہیں موجود نہیں۔

دوسری طرف، پاکستان کشمیر پر اصرار کرتا ہے کہ وہ ہمارا حصہ بنے گا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ریاست میں اپنے ہی عوام کو بنیادی حقوق حاصل نہیں، جو اپنے ہی بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر تشدد کرتی ہے، وہ کس اخلاقی بنیاد یا جواز پر کسی اور خطے کے لوگوں کے لیے خیر خواہ ہو سکتی ہے؟

ریاستی جبر، جب حد سے بڑھ جائے، تو قوموں کو بغاوت پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور پھر ریاست انہی باغیوں کو “دہشتگرد” کہہ کر مزید ظلم کرتی ہے اور انسانیت شرمندہ ہوجاتی ہے۔