پچھلے ایک ہفتے میں بدلتے خطے کی صورتحال سے یہ چیز تو کم از کم واضح اور صاف تھی کہ اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کردیگا۔ خطے کے یہ بدلتے حالات کوئی اچانک سے ہونے والی پیشرفت نہیں تھی بلکہ پچھلے کئی سالوں سے آتش فشاں اُبلتا رہا جو پچھلے دنوں اپنی پوری قوت کے ساتھ پھٹ گیا اور اس کا دھواں پورے ایران کی فضاؤں میں پھیل گیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنی بقاء اور دفاع کے لئے ایران پر حملہ کردیا ہے اور یہ حملہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ایرانی جوہری صلاحیت کو مکمل ختم نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم بارہا یہ دُہرا چُکے ہیں کہ وہ ایرانی رجیم کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور ایران میں رہنے والے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظالم حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں جس میں بلوچ کے علاوہ وہ تمام اقوام شامل ہیں جن کی سرزمین پر ایران قابض ہے اور وہ ایرانی قبضے سے جان چُھڑانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اگر اس جنگ کو روکنا چاہتا ہے تو اُس کو فورا ہتھیار ڈال دینے چاہئیں اور اپنے جوہری عزائم سے باز آنا چاہئیے نہیں تو آئیندہ کے حملے مزید خطرناک اور خون ریز ہونگے جس کے بعد کُچھ بھی نہیں بچے گا جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ عالمی طاقتوں نے موجودہ ایران کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر یہاں میں لفظ موجودہ ایران کو بروئے کار لا رہا ہوں تو شائد میرا مطلب ایرانی جغرافیہ نہ ہو بلکہ ایران کی اسرائیل و امریکہ مخالف قیادت اور مڈل ایسٹ کے تھاینداری کو کوشش والی سوچ ہے جہاں ایران پچھلے کئی دہائیوں سے خطے میں اپنے پروکسیز کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
چونکہ ایران کے خطے میں تمام اتحادی یا تو مکمل ختم ہوگئے ہیں یا انتہائی کمزور کردئیے گئے ہیں ایسی صورتحال میں ایران کی دفاعی لائن مکمل طور پر ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے جو بہت تیزی کے ساتھ ڈھل رہی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے جاری جنگ نے ایران کی تمام تر فوجی و دفاعی قیادت کے علاوہ جوہری سائنس دانوں کو ختم کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کُچھ ہوائی اڈے، میزائیل لانچنگ پیڈ، جوہری تنصیبات کے علاوہ تیل کی پیداوار کے مراکز اور ریفائینری بھی تباہ کردئیے گئے ہیں جبکہ دوسری جانب ایران کی طرف سے بھی جوابی حملے ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر مزائیل تو اسرائیل کی دفاعی نظام نے ناکام بنادئیے ہیں مگر جو میزائیل اسرائیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر نے یروشلم اور تل ابیب کو نشانہ بنایا ہے جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ جنگ اتنی بھی مختصر نہیں ہوگی جتنی کُچھ لوگ سوچ رہے ہیں۔ اب تک امریکہ اور دیگر مغربی قیادت نے اس جنگ میں کودنے سے اجتناب کیا ہے مگر ہواؤں کا رُخ اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ اگر ایران زیادہ نقصان کرے گا اور امریکی مفادات کو نُقصان پہنچائے گا تو دیگر مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ جو اب تک اسرائیل کی پوشیدہ طور پر مدد کررہے تھے کُھل کر سامنے آئیں اور باقاعدہ طور پر اس جنگ کا حصہ بنیں جو ایران کے لئے مکمل تباہ کُن ہوگا۔ ایران کافی حد تک کمزور ہوچُکا ہے اور اس کی یہ مُلا رجیم اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں تو یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ ایرانی قیادت روس کے ساتھ ایک ڈیل میں مصروف ہے جس کا بنیادی مقصد بشار الاسد کی طرز پر مُلک سے فرار ہوگی جو ایران کی شکست ہوگی۔ ایسی صورت میں ایران کے اندر موجود غیر فارسی اقوام جو ایرانی زیر تسلط یا مقبوضہ ہیں ان کو موقع ملے گا کہ وہ اندرونی طور پر ابھر کر اپنے اپنے علاقوں میں اپنی متوازی اجارہ داری یا حکومت قائم کرسکیں جن میں بلوچ بھی بحیثیت ایک مقبوضہ قوم کے شامل ہے۔
یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ کُرد اپنے علاقوں میں یہ کام شروع کرچُکے ہیں مگر بلوچوں نے بحیثیت قوم اس جانب کتنی توجہ دی ہے اور کتنی تیاری کی اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا مگر ہمارا قومی رویہ کافی مایوس کُن ہے۔ جب جب آزادی کی جنگیں ہوتی ہیں کسی خطے یا مُلک میں عدم استحکام شروع ہوتا ہے وہ دراصل مقبوضہ اور کالونائیزڈ اقوام کی تحاریک کے لئے ایندھن کا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر پوری دنیا میں امن ہو، کاروبار ہو، مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہ ہو تو وہاں تحریکیں آئیسولیشن میں چلی جاتی ہیں اور کُچھ وقت کے اندر اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔ یہ صورتحال بلوچ قومی تحریک کے لئے نہ صرف ایندھن کا کام کرسکتی ہے بلکہ یہ بلوچ کے لئے ایک موقع ہے جس سے بلوچ فائدہ اُٹھا سکتا تھا مگر اب تک کے حالات اور حقائق کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ قیادت کے ایک گروہ نے قومی مفادات پر ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی ہے اور تحریک کو ایک بندگلی کی جانب روانہ کردیا ہے مگر اب تک بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔
حالیہ بلوچ قومی تحریک کی جب بنیاد رکھی گئی تو اس کا بنیادی مقصد متحدہ بلوچستان کی بحالی تھی مگر آہستہ آہستہ اس تحریک میں شامل قیادت کے کچھ لوگوں کے ذاتی اور گروہی مفادات قومی مفادات پر غالب آگئے اور وہ نہ صرف ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے دستبردار ہوئے بلکہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے سندھ اور پنجاب کے علاقوں تک سے دستبردار ہوئے جو صریحاً نیشنلزم کی بنیاد پر شروع ہونے والی تحریک کی نفی تھی۔ یہ قصہ یہاں تک نہ رُکا بلکہ ایران کو دوست مُلک قرار دیا جانے لگا اور اُس گروہ کی قیادت کے کافی لوگوں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایران میں رہائش اختیار کی اور مکمل طور پر ایران کے حوالے سے دفاعی پوزیشن پر آ گئے اور نوبت یہاں تک آگئی کے ایران کے ہر مخالف کو ایرانی بیانیے کے عین مطابق دہشت گرد، مذہبی شدت پسند اور سعودی پروکسی کا درجہ دینے کے علاوہ گالم گلوچ تک کیا جانے لگا۔ ہمارے گناہگار کانوں نے پنجگور کے علاقے سبز کوہ میں ایرانی حملے میں شہید بلوچ عورتوں اور بچوں تک کو دہشت گرد قرار دیکر ان کے ایران کی بمباری میں شہید ہونے کے جواز تراشے گئے جب کہ اسی حملے کے رد عمل میں پاکستان نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی زمین پر بلوچ عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جو پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے علاقوں سے جنگ کی وجہ سے وہاں منتقل ہوئے تھے۔ ایران نے حملہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی سرزمین پر کرکے بلوچ عورتوں اور بچوں کو شہید کیا اور پاکستان نے بھی اسی عمل کو دُہراتے ہوئے ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ گھروں پر بمباری کرتے ہوئے بلوچ عورتوں اور بچوں کو شہید کیا، دونوں کا بیانیہ یہ تھا کہ یہ دہشت گرد ہیں، پاکستان نے اپنی بمباری میں مارے جانے والوں کو انڈیا کا ایجنٹ اور دہشت گرد قرار دیا جبکہ ایران نے اپنی بمباری میں شہید ہونے والوں کو سعودی و اسرائیلی ایجنٹ اور دہشت گرد قرار دیا، پاکستان کا بلوچ کے بارے میں بیانیہ کیا ہے اور ایران کا کیا اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور پڑنا بھی نہیں چاہئے لیکن لمحہ فکریہ اور قومی المیہ اُس وقت ہے جب ایک بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکن اُٹھ کر دشمن کے بیانئے کو اپنا کر کہے کہ شہید ہونے والی عورتیں اور بچے دہشت گرد اور مذہبی انتہا پسند تھے۔
یہ دوستوں کی جانب سے دُشمنوں والا رویہ نہ نیا ہے اور نہ ہی پہلی دفعہ ہورہا تھا بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جس کی شروعات آج سے 12 – 13 سال پہلے ہوئی جب بلوچ قومی تحریک کو ایران کے ہاں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے پیش نظر گروی رکھا گیا۔ کچھ سال پہلے مصنوعی ایرانی و پاکستانی سرحد گولڈ اسمتھ لائن کے پاس ایران کی دہشت گرد فورس نے بلوچ تاجروں پر فائرنگ کرکے چالیس کے قریب بلوچ تاجروں کو شہید کیا تو اس گروہ کے نشریاتی ادارے زرمبیش نیوز نے خبر شائع کی کہ سرحدی سیکیورٹی فورسز نے سرحد پر غیر قانونی سرحدی تجارت سے منسلک افراد پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں 40 کے قریب لوگ مارے گئے ہیں۔ اس کے بعد ایک دفعہ ایک بلوچ لڑکی جس کا نام ماہو بلوچ تھا، کی ایک ایرانی پولیس افسر کے ہاتھوں عصمت دری کا واقعہ ہوا مگر یہ گروہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر خاموش رہا لیکن جب وہاں کے بلوچوں نے بلوچ بچی کی عصمت دری کے خلاف آواز اُٹھائی اور احتجاج کیا تو ایرانی قابض فوج نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کرکے ڈیڑھ سو کے قریب بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا اِسی جھڑپ میں ایک ایرانی آفیسر بلوچوں کے ہاتھوں مارا گیا تو یہ گروہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اس قدر پستی میں گیا کہ اُس افسر کی موت کو بدقسمتی قرار دیکر اُس کو شہید قرار دیا جب عوامی رد عمل دیکھنےکو ملا تو اس کو اپنے ادارے کی غلطی قرار دیکر معذرت کرلی حالانکہ یہاں یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ۔۔۔۔۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ایک دم نہیں ہوتے
یہ کوئی ادارے کی فردی غلطی نہیں بلکہ اُس گروہ کی ایران کے ہاتھوں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کی وجہ سے تحریک کو گروی رکھنے کا ایک کُھلا اور ناقابل تردید ثبوت ہے کیونکہ اُس مخصوص گروہ کے مسلح بادشاہ سلامت کے بیانات ہوں، پارٹی چئیرمین اور ترجمان کے بیانات اور انٹرویوز ہوں یا دیگر ورکروں کا بیانیہ یہ سب ان کو ایک پیج پر دکھاتا ہے۔
میری آج کی تحریر کا اصل موضوع یہ نہیں کہ آیا یہ گروہ ایران کے ہاتھوں کھیل رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ جو کچھ یہ گروہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے کررہا ہے وہ کسی صورت بلوچ قوم اور قومی تحریک کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ یہ عمل بلوچ قومی تحریک کو ایک بند گلی میں دھکیل رہا ہے اور بلوچ شہیدوں کے ارمانوں کو بذریعہ ایران چین اور پاکستان کے ہاں گروی رکھ رہا ہے۔ اس حوالے سے ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں، سوشل میڈیا میں بحث و مباحثے ہوئے ہیں اور تمام دلائل سامنے رکھے گئے ہیں۔ ان دلائل میں ایک دلیل آج کے حالات کی طرف پیشنگوئی ہوتی رہی ہے کہ ایران وہ مُلک ہوگا جس کے خلاف اسرائیل، امریکہ اور اتحادی پاکستان سے پہلے حملہ کریں گے جہاں وہ ایران کو غیر مستحکم کریں گے تو اس وقت اس گروہ کے دلائل یہ ہوتے تھے کہ اول تو ایران مغرب کا ایک چُھپا ہوا اتحادی ہے جس کے خلاف کبھی فوجی ایکشن نہیں ہوگا لیکن جب شواہد اس جانب پیش قدمی کرنے لگے تو انہوں نے ایک نئی خود ساختہ منطق کا سہارا لیا کہ کوئی مُلک کسی قوم کو آزادی نہیں دے سکتا بلکہ آزادی اپنی قوت اور طاقت سے حاصل ہونے والی شے ہے۔ اگر اس خود ساختہ منطق کو مان لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آزادی صرف اپنی طاقت سے حاصل ہونے والی شے ہے تو انڈیا اور پاکستان کے مابین حال ہی میں ہونے والی جنگ کے دوران کیوں دو مسلح تنظیموں کے سربراہان نے ہندوستان کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرکے مدد مانگی کہ اگر ہمیں مدد فراہم کی گئی تو ہم پاکستان کو انگیج کرسکتے ہیں۔ جب تمام فیصلے آپ نے اپنی جنگ اور طاقت سے کرنے ہیں تو ہر بیان میں آپ کی قیادت کیوں دیگر اقوام اور ممالک سے مدد کی اپیل کرتے ہیں؟ کیوں ہرکسی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اُس کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکے؟
روس جب سووئیت یونین ہوا کرتا تھا مگر پھر ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور اُس سے کئی نئے مُلک وجود میں آئے، اگر روس کی معیشت نہ گرتی تو یہ مُلک آج بھی روس کا حصہ ہوتے، دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ کئی دیگر مُلک جو کالونی بنائے گئے تھے آزاد ہوئے جس سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ سیاسی، معاشی، سفارتی اور اندرونی کمزوریاں اور عدم استحکام ہی وہ تمام اجزائے ترکیبی ہیں جن کی کھوکھ سے قبضے اور کالونیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے جب یہی وہ اجزائے ترکیبی ہیں تو اس وقت بلوچ کے پاس ایک شاندار اور جاندار موقع ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اس موقع سے فائدہ اُٹھائیں کیونکہ بلوچوں کی 25 سالہ جنگ اور مزاحمت نے اچھی خاصی توجہ حاصل کرلی ہے اس کے علاوہ بلوچوں کی محل وقوع اس بد قسمت قوم کے زمین کی اہمیت کو مزید بڑھاوا دیتا ہے، سونے پہ سُہاگہ بلوچ سرزمین کے سینے میں دفن تیل، گیس، کاپر، یورینئیم، سونے اور دیگر قیمتی ذخائر اس کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں لیکن کیا بلوچ اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیا میں اپنے آپ کو اس خطے کا ایک شراکت دار ثابت کرے؟ دراصل بلوچ کی اپنی زمین سے محبت، قربانی اور جنگ کے جذبے سے سرشار ہونے کے علاوہ پچھلے پچیس سالوں کو نہ کمزور ہونے والی تحریک بلوچ کو نظر انداز ہونے سے روک سکتی ہے اگر بلوچ قیادت میں یہ صلاحیت اور وژن ہو کہ وہ اپنے آپ کو ایک قومی بیانئیے کا پابند بناکر اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرتے ہوئے سامنے آئے۔
جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، بلوچ سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا کے متحرک کارکن اس جنگ پر بحث کررہے ہیں اور اس جنگ کے نتیجے میں خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال اور اس سے بلوچ وطن پر پیدا ہونے والے اثرات پر بات چیت ہورہی ہے تو وہ گروہ جو ہمیشہ ہی ایران کے ساتھ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ چاہتی رہی ہے یہ دلیل دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جی یہ جنگ تو ایران کو جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے سے دور رکھنے کے لئے ہے اسرائیل اور امریکہ کا مقصد ایران کو توڑنے کا تو ہے ہی نہیں، جب اسرائیلی وزیر اعظم رجیم یا حکومت بدلنے کے مقصد کی بات کرتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے یہ حکومت یا رجیم جائیگی تو ایک نئی حکومت لائی جائیگی یا رضا شاہ (ایرانی صابقہ بادشاہ) کے بیٹے کو حکومت دی جائیگی اس میں بلوچ کو کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ اوپر میں نے دوسری جنگ عظیم کی مثال دی کہ کس طرح حکومتیں یا ریاستیں کمزور یا غیر مستحکم ہوئیں جس سے فائدہ اُٹھا کر کئی قوموں نے اپنی آزادی حاصل کی یا پھر سووئیت یونین کی مثال جہاں دنیا کی واحد سُپر پاور غیر مستحکمی کا شکار ہوا اور اس سے کئی نئے مُلک بنے اس کے علاوہ عراق اور سوریا کی حالیہ مثال جہاں کردوں اپنے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے، کردوں میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ بلوچوں کی طرح اتحاد و اتفاق کی ورنہ تو شائد اب تک کُرد ریاست تشکیل پاچُکی ہوتی۔ میں تو اپنی ناقص رائے کے مطابق تو یہ تک کہتا ہوں کہ اگر دوسری جنگ عظیم نہ ہوتئ تو شائد اب تک پاکستان اور انڈیا دنیا کے نقشے پر دو الگ الگ ریاستیں نہ ہوتیں مگر مجال ہے کہ یہ دلائل ان پر اثر انداز ہوں بلکہ اپنی پُرانی غلطی اور ذاتی و گروہی مفادات کو ڈھکنے اور چُھپانے کے لئے اب بھی state of denial میں ہیں اور بلوچ قوم اور قومی تحریک کا نقصان کررہے ہیں۔ اپنی انا میں اس طرح بھنور کی طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ اگر آج ہم نے اس بات پر حامی بھرلی تو شائد ہمیں اپنے کل کی سیاسی بصیرت سے عاری ہونے کا جواب دینا پڑ جائے۔
اگر اسرائیل اس رجیم یا حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتا ہے اس سے زیادہ اُس کے کوئی اور ارادے نہیں تب بھی یہ بات واضح ہے کہ یہ حکومت یا رجیم اُس وقت ہی ختم ہوگی جب اس حکومت کئ رِٹ یا کنٹرول مکمل ختم ہو، جب اس کی حکومتی رِٹ اس حد تک ختم ہوگی کہ کوئی نئی حکومت لاکر بٹھائی جائیگی تو اس سے ایک بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ اس دوران ایرانی ریاستیں میں بہُت کُچھ بدل چُکا ہوگا، یہ تبدیلی بھی ہوگی کہ آپ اپنے علاقوں میں اپنا کنٹرول قائم کرسکتے ہیں مگر آپ اگر اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اور وہ سب کُچھ ہونے دیتے ہیں جو آپ کی قوم اور قومی تحریک کے مفاد میں تو کسی صورت نہیں تو شائد آپ کے ہاتھ کُچھ نہ آئے۔ اس وقت آپ کے پاس موقع ہے، اس وقت اس جنگ میں کوئی فیصلہ کُن مرحلہ نہیں آیا اور کوئی نئی حکومت نہیں آئی، اس جنگ میں آگے پاکستان کا کردار اور حیثیت ہوگی یہ بھی طے نہیں اگر اس وقت اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کرتے تو اس میں کوئی بعید نہیں کہ کل کو آنے والی حکومت پاکستان سے کتنے قریب ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستانی آرمی چیف اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں اور جنگ شروع ہونے پہلے امریکی فوجی اور دفاعی قیادت کے بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن سے لگتا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اپنے ائیر پورٹس اور ائیر بیسز پر جاڈو پوچا کرکے ان کی صفائی کی ہوئی ہے اگر آپ سے پہلے پاکستان مغربی اتحادیوں کا قابل بھروسہ اتحادی بن گیا تو آپ کی حیثیت ختم ہوجائیگی۔ ایک اور اہم بات جو شائد بہت لوگ نظر انداز کررہے ہیں وہ چین کی بڑھتا ہوا اثرہے جس کو امریکہ بشمول مغربی اتحادی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے اسی وجہ سے ہی دنیا روس اور یوکرین کی جنگ دیکھ رہی ہے جہاں روس کو یوکرین میں پھنسا کر اُس کے ایک ایک اتحادی کو چُن چُن کر ختم کیا جارہا ہے جن میں سوریا اوت پھر ایران سر فہرست ہیں۔ ان مُلکوں کے علاوہ ایرانی پروکسیز بھی تقریبا ختم کردی گئی ہیں جو اُس بلاک کو تھوڑنے کی دلیل ہے جس کا چین ایک شریک ہے۔ ایران کی حکومت کے خاتمے کے بعد دنیا میں چین اور روس کے لئے بچتا کیا ہے؟ سوریا میں اپنی حمایتی حکومت قائم کردی گئی ہے، روس کو ایک دوسرے ملک کے ساتھ ایک جنگ میں جھونک دیا گیا ہے ایران کے ساتھ بھی جنگ شروع ہوچکی ہے جس کے ابھی نتائج آنا باقی ہیں۔ آج کی دنیا میں بڑی طاقتوں کے ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل آنا تو شائد ممکن نہ ہو تو یہ ایک طریقہ ہے اپنے حریف کو کمزور کرنے اور اُس ریس باہر کرنے کا جو امریکہ اور اُس کے اتحادی ہمیشہ چاہتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔
آخر میں میں اس درخواست کے ساتھ اپنی تحریر سمیٹوں گا کہ خُدارا اس مار کھائی قوم پر رحم کریں اور اس سے پہلے کہ بُہت دیر ہو آپسی رابطے بحال کرکے ایک میز پر بیٹھیں اور بلوچ قوم کو ایک آواز دیں جس کی اس بد قسمت قوم کو ضرورت ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کیونکہ اگر یہ موقع بلوچ کے ہاتھ سے نکل گیا تو شائد ہی مستقبل قریب میں بلوچ کو پھر سے ایک ایسے موقعے کی امید ہو۔