حالیہ برسوں میں شام میں تاریخی ورثے کی تباہی کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہی ہیں، لیکن اسی دوران بلوچستان میں بھی ایک ایسا ورثہ بربادی کا شکار ہے جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔
کوئٹہ سے تین گھنٹے مشرق کی جانب ضلع بولان میں پکی سڑک سے پانچ کلومیٹر دور دھول سے اٹا ہوا دشت ہے جس میں افق پر کہیں کہیں خانہ بدوشوں کے ایک آدھ خیمے کے علاوہ ہر طرف ویرانی کا راج ہے۔ ایک طرف درۂ بولان کی بھوری پہاڑیاں ہیں تو دوسری طرف اتھلا دریائے بولان اپنے اندر نہ جانے کتنے راز چھپائے گمبھیر خاموشی سے بہہ رہا ہے۔
مجھے وہاں چلتے ہوئے مٹی میں دبا ہوا ایک تکونا ٹھیکرا نظر آیا۔ میں نے اسے اٹھا کر صاف کیا تو اس پر سیاہ رنگ کی دھاریاں نمایاں ہو گئیں۔
میرے ساتھ سکیورٹی محافظوں کی دو ڈبل کیبن گاڑیاں تھیں جو میری درخواست پر مقامی حکام نے فراہم کی تھیں۔ ڈیڑھ درجن کے قریب بندوق بردار محافظ گاڑیوں کودے اور گرد سے بری طرح اٹے ہوئے کپڑے اور منھ کے گرد لپیٹے ڈھاٹے جھاڑ کر ارد گرد کے ٹیلوں پر پوزیشنیں سنبھال کر کھڑے ہو گئے۔
یہ کوئی جنگی محاذ نہیں ہے۔ اسی دشت میں آج سے آٹھ ہزار سال پہلے دنیا کا سب سے بڑا شہر آباد تھا۔ اس زمانے میں جب دجلہ اور فرات کے درمیان آباد دنیا کی اولین تہذیب کے سب سے بڑے شہر کی آبادی چار ہزار نفوس سے زیادہ نہیں تھی، یہاں 20 ہزار سے زیادہ لوگ بستے تھے۔ میرے ہاتھ میں جو ٹھیکری ہے، وہ کسی نفیس برتن کا حصہ لگتی ہے، جسے یہیں کہیں کسی کمھار نے چابکدستی سے وضع کیا ہو گا۔
تھوڑا آگے جا کر دیکھا تو ایک لمبوترے گڑھے میں بھربھری مٹی کی چند دیواریں نظر آئیں جو مشکل سے دو تین فٹ بلند ہوں گی اور ان میں سے بھی اکثر ڈھے چکی تھیں۔ جو باقی بچ گئی ہیں وہ بھی چند تیز برساتوں کی مار نظر آ رہی ہیں۔ یہ دیواریں اس قدر قریب قریب ہیں کہ بظاہر رہائشی عمارتوں کا حصہ نہیں لگتیں۔ شاید یہ کسی گودام کی کوٹھڑیاں ہیں جن میں غلہ ذخیرہ کیا جاتا ہو گا۔
یہ مہرگڑھ ہے۔
میرے ساتھ ماہرِ آثارِ قدیمہ ایم رضا بلوچ بھی تھے۔ انھوں نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بتانا شروع کیا: ’جس کو وادیِ سندھ کی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ اصل میں وادیِ بولان کی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کا گہوارہ یہی مہرگڑھ ہے۔‘
ایک عرصے تک ماہرین مخمصے کا شکار تھے کہ ہڑپا اور موہنجودڑو کے شہر بنی بنائی، ڈھلی ڈھلائی شکل میں یک لخت کیسے نمودار ہو گئے کیوں کہ ان شہروں کے قدیم ترین حصوں کی کھدائی سے بھی خاصی ترقی یافتہ تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔
پھر 1973 میں ایک فرانسیسی ماہرِ آثارِ قدیمہ ژاں فرانسوا جیرگ نے مہرگڑھ کے مقام پر کھدائی شروع کی تو معلوم ہوا کہ وادیِ سندھ کی اصل جنم بھومی دراصل مہرگڑھ ہے۔ یہاں آج سے نو ہزار سال قبل ایک زرعی بستی بسنا شروع ہوئی، جو پتھر کے زمانے، پکی مٹی کے برتنوں کے زمانے، تانبے کے زمانے، اور کانسی کے زمانے جیسے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے بتدریج ارتقائی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
فرانسیسی ٹیمیں یہاں 30 سال تک کھدائی کرتی رہیں، اور اس دوران انھوں نے یہاں سے انسانی ڈھانچوں، مجسموں، کھلونوں، اوزاروں، برتنوں، اور دوسرے ساز و سامان کی شکل میں انسانی تاریخ کا بیش بہا خزانہ برآمد کیا۔
لیکن پھر 2002 میں ایک قبائلی زمینی تنازعے کے شعلے اس قدر بھڑک اٹھے کہ یہ کھنڈرات بھی اس کی زد میں آنے سے نہ بچ سکے۔ ایک حریف بلوچ قبیلے نے فرینچ ٹیم کی رہائش گاہ بلڈوزر لگا کر مسمار کر دی، اس علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا دیں، اور وہاں موجود بیش قیمت آثار مبینہ طور پر غائب کر دیے۔
ان نوادرات کو بین الاقوامی سمگلر مارکیٹ پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔ کچھ عرصے بعد خبر آئی کہ لاہور پولیس نے ہوائی اڈے سے مہرگڑھ کے 153 نوادرات پکڑے ہیں جو بطور ’گھریلو سامان‘ آسٹریلیا بھیجے جا رہے تھے۔ پھر ڈیڑھ سال قبل خبر آئی تھی کہ اطالوی پولیس نے چھاپا مار کر کچھ نوادرات برآمد کیے ہیں جو مہرگڑھ سے نکالے گئے تھے۔
اسی دوران بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال ابتر ہونا شروع ہو گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف فرانسیسی مشن نے اس کے بعد دوبارہ یہاں کا رخ نہیں کیا بلکہ بلوچستان کے دوسرے حصوں میں کام کرنے والی ٹیمیں بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہو گئیں۔
مہرگڑھ کی تباہی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے یہ کہ اسے آج تک یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل نہیں کروایا جا سکا۔ پاکستان آرکیالاجیکل ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمود الحسن بتاتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ ایک بار پھر سکیورٹی ہے۔
’وہ دور دراز کا علاقہ ہے، نہ وہاں سڑک ہے، نہ کوئی عجائب گھر قائم کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں، غیرملکی تو کیا، مقامی سیاح تک وہاں جا نہیں سکتے۔ اس لیے مہرگڑھ یونیسکو کی فہرست میں شمولیت کی شرائط ہی پر پورا نہیں اترتا۔
اس بات کی تصدیق یونیسکو کے کلچرل پروگرام کے افسر جواد عزیز بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیسکو کے عالمی ورثے کا حصہ قرار دینے کے لیے چھ شرائط ہیں، جن میں سے مہرگڑھ صرف ایک شرط پوری کرتا ہے، اس لیے آج تک پاکستانی حکومت کی جانب سے باضابطہ درخواست ہی دائر نہیں کی گئی۔‘
یہ الگ بات کہ دنیا میں شاید کم ہی ایسے مقامات ہوں گے جو مہرگڑھ سے زیادہ یونیسکو کی فہرست میں جگہ پانے کے حقدار ہوں۔ آبادی کے حجم کے علاوہ دنیا میں سب سے پہلے کپاس مہرگڑھ میں آٹھ ہزار سال قبل اگائی گئی۔ دنیا میں دانتوں کی سب سے پہلی سرجری یہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ برصغیر میں مجسمہ سازی اور بت سازی کے فن کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔
آج سے چار ہزار سال پہلے مہرگڑھ اجڑنا شروع ہو گیا۔ ماہرین اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی بتاتے ہیں۔ خیال ہے کہ انھی لوگوں نے جا کر وادیِ سندھ کے شہر آباد کیے۔
اب مہرگڑھ کے یہ بچے کھچے آثار ماحولیاتی تبدیلی نہیں، بلکہ عوامی، ادارہ جاتی اور حکومتی بےحسی کا شکار ہو کر مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں۔
آخر ملکی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ بقول فاروق بلوچ، اسسٹنٹ پروفیسر بلوچستان سٹڈی سینٹر، ’بلوچستان تاریخی اعتبار سے سے مالامال علاقمہ ہے، لیکن آج تک متعدد سفارشات کے باعث بلوچستان یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ قائم نہیں کیا جا سکا۔
اس کی بڑی وجہ ایک بار پھر سکیورٹی صورتِ حال ہے کہ خود بلوچستان میں اس شعبے کے اساتذہ نہیں ہیں، اور دوسرے صوبوں سے ماہرین وہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جہاں تک غیرملکی ماہرین کی بات ہے، جو مسافر پرندوں کی طرح ہر سال سردیوں کے موسم میں مہرگڑھ آ کر تحقیق کیا کرتے تھے، وہ ایسے رخصت ہوئے کہ پھر لوٹ کر نہیں آئے۔
مہرگڑھ کے کھنڈرات کے ڈھیر پر تین گھنٹے گزارنے کے بعد میں نے ہاتھ میں پکڑی نوکیلی ٹھیکری کو ایک بوسیدہ دیوار پر رکھ دیا اور سکیورٹی اہلکاروں کی بندوقوں کے سائے میں واپسی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
بشکریہ بی بی سی اردو