کوئٹہ ( ہمگام نیوز)نبیل بلوچ کے اہل خانہ کی جانب سے بارہویں دن بھی علامتی بھوک ہڑتال کی گئی آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کیمپ کا دورہ کیا انہوں نے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں گذشتہ بارہ سالوں سے 18ہزار سے زائد بلوچوں کو ایجنسیوں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے اور تین ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں سڑکوں اور پہاڑوں پر پھینکی گئی ہے اب بلوچستان کے بعد کراچی اور سندھ سے بھی بلوچ طالب علموں اور نوجوانوں کو ایجنسیاں گرفتار کرکے ٹارچر سیلوں میں منتقل کررہی ہیں نبیل بلوچ کو بھی 30اگست 2014کو جھٹ پٹ مارکیٹ چاکیواڑہ لیاری سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی بہن اور کزن کیساتھ شاپنگ کررہے تھے نبیل بلوچ ایک طالب علم ہے اس کا کسی سیاسی پارٹی یا طلبہ تنظیم سے کوئی تعلق ن ہیں ہے اسے صرف اس لئے یرغمال بنایا گیا ہے کہ اس کے بعد کچکول علی ایڈووکیٹ بلوچستان کے ایک نامور سیاسی رہنماء ہیں اور وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے شہید قائد غلام محمد بلوچ لالا منیر بلوچ شیر محمد بلوچ کے مقدمہ کی پیروری کررہے تھے 3اپریل 2009کو ان کے دفتر سے ان رہنماؤں کو مسلح ایجنسیوں کے لوگوں نے گرفتار کیا اور 8اپریل 2009کو ان کی مسخ شدہ لاشیں تربت کے قریب مرگاپ کے مقام پر پھینکی گئی کچکول علی ایڈووکیٹ اس واقعہ کے عینی گواہ تھے اور انہوں نے عدالتی ٹریبونل میں اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا جس کی بناء پر ایجنسیاں ان کی جان کی دشمن ہوگئی اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں سمیت مختلف حربے سے خوفزدہ کیا گیا ۔انہوں نے نبیل بلوچ کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ انسانی حقوق تنظیموں سیاسی پارٹیوں سول سوسائٹی عدلیہ اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ نبیل بلوچ کی بحفاظت بازیابی کیلئے بھر پور آواز اٹھائیں ۔