بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ابابگر بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کو اپنے تعلیمی مسائل کو اجاگاہ اور ان کے حل کے لیئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچ اسٹوڈنٹس کے لیئے بے شمار مسائل پیدا کئے گئے ہیں جن کا مقصد اسٹوڈنٹس کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنا ہے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ ، میرین یونیورسٹی اوتھل ، انجینیئرنگ یونیورسٹی خضدار، آئی ٹی یونیورسٹی کوئٹہ ، بولان میڈیکل کالج سمیت تمام تعلیمی اداروں بلوچ اسٹوڈنٹس کے حقوق پامال کیئے جارہے ہیں بلوچستان یونیورسٹی کو مخصوص لابی کے نظر کردیا گیا ہے جو براہراست بلوچ دشمن اقدامات میں مصروف عمل ہے میرٹ کے دعویدار کھلم کھلا میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ، میرین یونیورسٹی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے ، بولان میڈیکل کالج میں سیلف فائینینس اسکیم متعارف کردیا گیا ہے جبکہ آئی ٹی یونیورسٹی میں بلوچ دشمن اقدامات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں دوسری جانب بنیادی تعلیمی ادارے مکمل طور پر زبو حالی کا شکار ہیں بلوچستان کے کالجوں میں اب تک سائنس کی سہولیات مہیسر نہیں کی گئی ہیں اور وہ سائنسی اساتذہ سے محروم ہیں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کوئٹہ پچھلے ۵ سال سے بندش کا شکار ہے جس کی وجہ سے بلوچستان خود پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز پیدا کرنے سے محروم ہے جس کی وجہ سے دوردراز کے علاقے شدید صحت کی سہولیات سے محروم ہیں ڈاکٹر ابابگر بلوچ نے مزید اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان بھر میں نجی تعلیمی اداروں کے سرگرمیوں کو متاثر کردیا گیا ہے جبکہ انہیں براہراست دھمکیاں دی جارہی ہیں اور بلوچ اسٹوڈنٹس کو لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھیکنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے دوسری جانب بلوچ ڈاکٹرز کے لیئے بھی عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے پنجگور سے گزشتہ روز ڈاکٹر شبیر احمد بلوچ کو لاپتہ کردیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر باقر شاہ کو تربت اور ڈاکٹر منوج کمار کو پہلے ہی کوئٹہ سے لاپتہ کیا جاچکا ہے ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور ڈاکٹر اکبر مری پچھلے چار سال سے لاپتہ ہیں