کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنے مرکزی بیان میں ضلع کچی (بولان) کے تعلیمی اداروں کی زبو حالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کے تمام تعلیمی ادارے حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے مفلوج ہوکر رہے گئے ہیں تعلیمی ایمرجنسی کا یہ عالم ہے کہ ضلعے کے 3کالجز، 10ہائی اسکولز،19بوائس مڈل اسکولز، 8گلز مڈل اسکولز، 292بوائس پرائمری اسکولز، 61گلز پرائمری اسکولزمکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں تمام تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی خصوصا سائنسی علوم کی شدید کمی ہے جبکہ فرنیچر کئی عرصے سے مہیا نہیں کیا گیا ہے سائنسی لبارٹری کا کوئی وجود نہیں ہے تعلیمی اداروں میں نہ تو کتابیں مہیا کیئے گئے ہیں اور نہ ہی کمپیوٹرز لیب ہیں جبکہ بجلی، گیس اور ٹیلی کمینوکیشن کی کوئی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں ہے ان تعلیمی اداروں میں ہزاروں طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں لیکن چونکہ ان اداروں میں تعلیم کے لیئے بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اس لیئے ان اداروں میں بیشتر طلباء وطالبات کی مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے محکمہ تعلیم کو بار بار اس طرف متوجہ کیا گیا لیکن وہ ٹھس سے مس نہیں ہوا موجودہ حکومت کے بلند بانگ دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ چکے ہیں ترجمان نے کہا کہ حکومت اخباری بیانات سے نکل کر عملی اقدامات کرے تاکہ بلوچستان کے طلبا و طالبات کا مستقبل روشن ہوسکے اس زبو حالی سے اندازہ لگائیں کہ ضلع کچی کے اسٹوڈنٹس کو دیگر ضلعوں کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ مقابلہ کرانا کہاں کا انصاف ہوگا ترجمان نے کہا اس لیئے ہمارا مطالبہ ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں تمام ضلعوں کے لیئے مخصوص نشستیں مہیا کیئے جائیں تاکہ تمام ضلعوں کے طالب علموں کو برابری کی بنیاد میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ضلع بولان کے تعلیمی اداروں کی زبو حالی کا حکومت فوری طور پر نوٹس لے کر ذمہ دار ان کے خلاف کاروائی کرے تاکہ موسم سرمہ کی تعطیلات کے بعد ضلعے کے اسٹوڈنٹس کو تعلیم کے لیئے اچھا ماحول مل سکے۔