شنبه, اکتوبر 19, 2024
Homeآرٹیکلزعالمی سیاست اور بلوچ قومی تحریک تحریر: سعید بلوچ

عالمی سیاست اور بلوچ قومی تحریک تحریر: سعید بلوچ

ہمگام کالم : اگر آج ہم بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر دوڑائیں تو یہ بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا سیاسی حوالے سے ایک بڑی تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔ نئے لابی، نئی گروہ بندیاں ریاستوں کے مابین تعلقات کا اتار چڑھاؤ ، بین الاقوامی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کا موجب بن رہی ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاھو کا دورہ ِ پاکستان، ایران کی طرف سے مڈل ایسٹ میں مداخلت، شام میں امریکہ بمقابلہ روس، امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیاں، اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ کی کیفیت، یمن میں ایران کی جانب سے حوثی باغیوں کو کمک، کچھ دن قبل روس کے دارلحکومت ماسکو میں امن کانفرس، جس میں طالبان کو بطور سیاسی فریق کانفرس میں نمائندگی دی گئی، اسی طرح چین کا ون بیلٹ ون روڑ پروجیکٹ جس کے توسط سے چین پوری دنیا میں نئی کالونائزیشن کی خواب دیکھ رہا ہے بین الاقوامی سیاست کے خوفناک پہلو ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ بین الاقوامی سیاست کی اس اتار چڑاؤ کا برائے راست تعلق دنیا کے اپنے قومی مفادات سے ہے۔

آج کے بین الاقوامی سیاست میں ہر ملک اپنی دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہا ہے۔ دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر ملک کو دوسرے ملک سے اپنی قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا خطرہ لاحق ہے، روس کا مڈل ایسٹ میں مداخلت کے بعد امریکہ کو ڈر یہ ہے کہ روس مڈل ایسٹ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچائے گی، ایران کا مڈل ایسٹ میں مداخلت اسرائیل کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، اسی طرح چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا پروجیکٹ نہ صرف ہندوستان کے لیے درد ِ سر ہے بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوِں کے لیے بھی بے چینی کا باعث بنتی جارہی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قومی مفادات کے جنگ میں یا بین الاقوامی سیاست کے خدوخال کے اندر بلوچ قومی تحریک کی پوزیشن کیا ہے؟ کیا بلوچ قومی تحریک بین الاقوامی مفادات کے جنگ میں بلوچ قومی مفادات کا تحفظ کرسکے گی یا نہیں؟ کیا بلوچ قیادت اس خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش ِ نظر دنیا کے سامنے اپنے آپ کو بحیثیت ِ فریق منوا سکے گی یا نہیں ؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے ہمیں بلوچ قومی تحریک کے آج کے حالات پر جائزہ لینا ہوگا۔

بلوچ جہد ِ آزادی 2000 کے دورانیے میں ایک قومی جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو ہنوز جاری و ساری ہوکر اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں ہے۔ بلوچ قوم کی خوش نصیبی یہ ہے کہ بلوچستان ایک ایسی خطے میں واقع ہے جس کی جغرافیائی لوکیشن دنیا کے لیے خاصی اہمیت کی حامل ہے اگر یوں کہا جائے کہ یہ خطہ آج کے عالمی سیاست کا محور سمجھا جاتا ہے تو بھی غلط نہیں ہوگا۔ لیکن باعث صد افسوس بات یہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک نے اب تک عالمی سیاست کے پیش نظر ایسی کوئی پر زور کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے جس کے توسط سے بلوچ قومی قیادت اس خطے میں اپنے آپ کو ایک فریق کی حیثیت سے منوا سکے۔ یہ ایک تلخ لیکن مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک مضبوط و منظم قوت ہونے کی بجائے مسلسل تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ بلوچ قومی تحریک کے اندر سیاسی و مسلح، دونوں محاذوں میں ایک تذبذب جیسی کیفیت ہے۔ آپ بلوچ قومی تحریک کے اندر ان تمام گھمبیر و بڑے مسائل کو بالائے طاق رکھ کر محض اس چھوٹی سی ایشو پر اندازہ لگائیں کہ بلوچ آزادی پسند تنظمیں و قیادت ابھی تک قومی جھنڈے پر متفق نظر نہیں آتے۔ عالمی سیاست کے روح سے یہ ایک مسلمہ حقیت ہے کہ دنیا کمزور و منتشر تحریکوں کی حمایت نہیں کرتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر دنیا کسی تحریک کی تائید کریگی تو اس تائید کے پیچھے دنیا کے کچھ مفادات بھی وابسطہ ہونگے ۔ اس لیے دنیا اپنی ان مفادات کی تکمیل کے لیے کمزور و منتشر تحریکوں کا انتخاب نہیں کرتی، کیوں کہ دنیا کو اپنی ان مفادات کی تکمیل کیلئے باقاعدہ یقین دہانی چاہیے ہوتا ہے جو کمزور اور منتشر تحریکیں اس یقین دہانی پر پورا نہیں اتر سکتے۔ عموماً ایک سوال سننے میں آتی ہےکہ ،، امریکہ کیوں بلوچ قومی تحریک کی حمایت نہیں کرتا،، اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں بلوچ قومی تحریک کی حمایت کرے؟ کیا بلوچ قومی تحریک پاکستان کے نسبت امریکہ کے مفاد کو پایہ تکمیل تک لے جانے کی قوت رکھتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر امریکہ کیوں بلوچ قومی تحریک کی حمایت کرے؟ اگر ہاں تو پھر بلوچ قومی تحریک میں یہ قوت ہمیں کیوں نظر نہیں آتی؟ سی پیک پروجیکٹ کامیابی کے ساتھ اپنی ہدف حاصل کرتا جارہاہے۔ ہماری مسلح تنظیموں کی جانب سے ابھی تک سی پیک کے خلاف ابھی تک ایسی کوئی موثر حملہ سامنے نہیں آئی ہے جو بین الاقوامی میڈیا کا فوکس بنے، یا سی پیک کو ایک بڑی نقصان سے دوچار کرے۔ صرف تین، چار چینی انجینئروں پر خودکش حملہ اس خطے میں امریکی پالیسی میکرز کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مائل نہیں کرسکتی۔ کیونکہ ان حملوں کی نوعیت اتنی بڑی نہیں ہوتی کہ جس سے سی پیک پروجیکٹ ایک بڑی تباہی سے دوچار ہو۔اس کے لیے بڑے حملے اور منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس طرح کے حملے اور منصوبہ بندی تب ممکن ہوتی ہے جب بلوچ قومی تحریک کے اندر سیاسی و مسلح محاذوں میں ایک منظم ہم آہنگی کا قیام ہو۔ یہ سچ ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں چینی قونصل پر ہونے والا حملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بڑا حملہ تھا جس نے کم و بیش بین الاقوامی زرائع ابلاغ کی توجہ بھی حاصل کرلیا تھا۔ لیکن بلوچ تحریک کے اندر حالیہ انتشار کے پیش نظر اگر اس حملے پر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو بات صاف طور واضح ہوجاتی ہے کہ اس حملے میں دنیا کی توجہ کو حاصل کرنے سے زیادہ کچھ لوگوں کی پروجیکشن زیادہ مقصود نظر آیا۔ یہ لوگ بی ایل اے اور اس کے قیادت کے مقابلے میں اپنے آپ کو بلوچ قوم کے سامنے صحیح و برحق ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ دنیا کو اس پروجیکشن کی جنگ میں کوئی سروکار نہیں کیونکہ پروجیکشن کی اس جنگ میں بلوچ قومی تحریک مزید کمزور ہوتی جارہی ہے اور دنیا کمزور تحریکوں پر اپنے قومی مفادات کا سودا نہیں کرسکتا ۔

بلوچ قومی تحریک کے اندر ایک منظم ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث ہر گروہ یا تنظیم کے خارجہ پالیسیاں دوسرے گروہ یا تنظیم کے خارجہ پالیسیوں کے برعکس نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسی خارجہ پالیسی ہے جو اس خطے میں بین الاقوامی سیاست کے اسٹریٹجک بیلنس سے مطابقت رکھتی ہے؟ مثلاً بلوچ تحریک میں سرگرم ایک گروہ ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرکے خطے کے اندر ایران کی مفاد کی تکمیل کے لیئے اندر اپنی مفاد کا کھوج لگانے میں مصروف عمل ہے۔ تو کیا یہ پالیسی اس خطے میں امریکی مفادات کے برخلاف نہیں ہے؟ اگر ہاں تو پھر امریکہ کس جواز کے بنیاد پر بلوچ قومی تحریک کی حمایت کرے؟ اگر یہاں پر یہ سوال ابھر کر سامنے آتی ہے کہ امریکہ بلوچ تحریک کے ان قوتوں کو کیوں سپورٹ نہیں کرتا جن کی خارجہ پالیسیاں پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کے بھی خلاف خطے میں امریکی مفادات کے عین مطابق ہیں تو اس سوال پر ایک اور سوال ظہور پذیر ہوتی ہے کہ کیا یہ قوت اپنے اندر اتنی قوت رکھنے کی سکت رکھتے ہے کہ اس خطے میں امریکہ کو پاکستان کے نسبت زیادہ تر فائدہ پہنچا سکے ؟ کیا ہمیں یہ علم نہیں کہ 9/11 کے بعد اس خطے میں پاکستان امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے بطور ایک غلام امریکہ کے لیے کارآمد رہی ہے؟ بلوچ قومی تحریک کے کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر امریکہ اگر پاکستان کو ایران کے خلاف استعمال کرے، تو یہ امریکہ کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا بجائے امریکہ بلوچ تحریک کے اندر ان قوتوں کو سپورٹ کرے جو ایران کو اپنا دشمن و قابض تصور کرتا ہے۔ کیونکہ بلوچ تحریک کی قوت منقسم ہے ہر ایک کا اپنا ایجنڈا اور اپنی مختلف پالیسیاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ تحریک کے اندر ہائے دن نئی گروہ و پارٹیاں بن رہی ہیں جو تحریک کو مزید تقسیم در تقسیم کی جانب لے جارہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ دنیا منقسم و منتشر تحریکوں کی حمایت نہیں کرتا کیوں کہ یہ تحریکیں دنیا کی مفاد کو تحفظ دینے کی ضامن نہیں ہوتیں ہیں۔ اگر کوئی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ امریکہ انسانی رشتے کی بنیاد پر بلوچ تحریک کی حمایت کریگی تو برائے مہربانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر نظر دوڑائیں جس نے کچھ دن قبل عرب صحافی جمال خشوگی کے قتل پر دیا تھا، پوری دنیا ایک صفحہ پر ہے کہ سعودی کو جمال خشوگی کی قتل کی سزا دی جائے، لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے سب سے پہلے امریکی مفادات ہے، اس نے کہا جمال خشوگی کے قتل ،،سعودی شہزادہ سلمان نے کیا یا نہیں! لیکن امریکہ کے مفادات سعودی عرب سے وابسطہ ہیں اس لیے ہم سعودی کے ساتھ اپنے تعلقات نہیں بگاڑ سکتے۔ اسی طرح یمن کے اندر جنگ کی وجہ سے 85000 بچے لقمہ اجل بن گئے ، لیکن نہ امریکہ کے کان میں جوں تک رینگی اور نہ ہی دوسرے ممالک کے، کیوں کہ امریکہ اور دنیا کے مفاد کی کڑیاں ان معصوم بچوں کے لقمہ اجل بننے سے جاکر نہیں ملتی۔

بلوچ تحریک سے جڑی ایک گروہ جو ایران کے گود میں سر رکھ کر بلوچستان کی آزادی کی جنگ کو پایہ تکمیل تک لے جانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس گروہ کا موقف ہے کہ ہم ایران کو بطور پناہ گاہ استعمال کرکے پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے جہد آزادی کو آگے لے جائیں گے ۔یہ بات یقیناً ایک لطیفے سے کم نہیں۔ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی ایران کی تباہی کا پہلا و آخری مرحلہ ہوگا اور ایران ہم سے زیادہ اس بات پر باخبر و با علم ہے۔ ایران یہ کھبی نہیں چاہتا کہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی تحریک میں شدت و وسعت آئے کیونکہ ایران اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی تحریک کی وسعت برائے راست ایرانی مقبوضہ بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ ایران اس وقت اس گروہ کو جیش العدل کے خلاف استعمال کررہی ہے جب یہاں پر ایران کے مفاد پورے ہونگے تب جاکر ایران اس گروہ کی جڑوں کو کاٹنا شروع کر دے گی۔

اس گروہ کی ایران کے ساتھ ساز و باز کو اگر عالمی سیاست کے تناظر سے دیکھا جائے تو یہ بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک بڑی نقصان کے موجب بنتی نظر آرہی ہے۔ ایران کے ہاں استعمال ہونے والے تمام گروہ دنیا کے نظر میں دہشت گرد گروہوں کے فہرست میں شامل ہیں کیونکہ ان پراکسیز کے توسط سے ایران اپنی مذموم عزائم کی تکمیل میں لگا ہوا ہے اس لیے آج ایران دنیا کے لیے ایک دردِ سر بن چکی ہے۔ عالمی سیاست کی بدلتی ہوئی خدوخال کے مطابق اسرائیل اور امریکہ اب ایران پر حملہ کرنے سے دیر نہیں کریں گے۔ نیوکلیئر ڈیل کے خاتمے ، اقتصادی پابندیوں میں شدت ایران کے خلاف ایک منظم منصوبہ بندی کی واضح تیاریاں ہیں۔ ان حالات کے باوجود ایران کے ساتھ ساز و باز اور ایرانی مفادات کی چوکیداری کا مطلب اس خطے میں امریکی مفادات کے سامنے ڈیرہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ طے ہے کہ امریکہ اور ایران کے جنگ میں امریکہ کا ایک ہتھیار سعودی عرب ہے اور سعودی ایران کے خلاف برائے راست جیش العدل کو سہولت فراہم کررہی ہے۔ اب یہاں بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی ایل ایف اور گلزار امام گروہ کا جیش العدل پر حملہ خطے میں امریکی مفادات سے ٹکرا رہے ہیں ۔خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا یقیناً بلوچ تحریک کے مفاد میں نہیں ہے۔

سویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ عالمی سیاست میں سپرپاور کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی جو تاحال امریکہ عالمی سیاست کے اندر سب سے بڑی و کلیدی کردار کے حیثیت سے نمودار ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ روس بھی میدان میں کود پڑا ہے جو ایران اور چین کے ساتھ مل کر اپنی پرانی حیثیت کو بحال کرنے واسطے امریکہ کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ شام میں بشارالاسد کی گرتی ہوئی حکومت کو سہارا دینا، ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی ، ماسکو میں امن کانفرنس کو لیکر طالبان کو بطور سیاسی فریق تسلیم کرنا، (جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ روس اب افغانستان کے اندر بھی امریکی مفادات کے برخلاف میدان میں کھود پڑا یے۔) امریکہ سے برتری حاصل کرنے کے صاف نشانیاں ہیں۔ روس ایک بار پھر سپرپاور بنے گا یا نہیں؟ دنیا ایک بار پھر دو بلاک میں تقسیم ہوگی یا دنیا کی طاقت کے توازن روس اور امریکہ کے مابین برابری کے بنیاد پر تقسیم ہو جائے گی؟ ان سوالات کو ہم آنے والے وقت پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس مسلمہ حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج دنیا میں صرف ایک ہی سپرپاور ہے اور وہ ہے امریکہ۔ اس لیے آج دنیا کے کسی بھی کونے میں جغرافیائی تبدیلی یا قومی آزادی کے تحریکوں کی کامیابی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مرضی و منشا سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب بلوچ قومی قیادت کے سامنے سوال یہ ابھر کر عیاں ہوتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو لے کر بلوچ قومی قیادت کس طرح اس قوت کی مفاد کو بلوچ قومی مفاد سے جوڑتا ہے؟ میرے نزدیک اس کے لیے سب سے پہلے بلوچ قومی تحریک سے منسلک تمام تنظیموں کے مابین ایک مضبوط الائنس کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ایک خارجہ پالیسی پر متفق ہوکر اپنے تحریک کے اندر کمزوریوں کوتاہیوں کا ازالہ کرے۔ اس الائنس کے اندر بلوچ سیاسی قوت گراؤنڈ اور بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ منظم انداز سے تحریک کی نمائندگی کرے۔ آج کے عالمی سیاست کے پیش نظر اس الائنس کا اہم جزو خارجہ پالیسی ہو۔ ایک منظم الائنس اور ہم آہنگی کی فقدان کے باعث بلوچ تحریک سے جڑے ہر تنظیم کا اپنا الگ خارجہ پالیسی ہیں مثلاً ایک گروہ ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرکے وقتی ضرورتوں کے تکمیل کی تگ و دو میں ہے جبکہ دوسری جانب ایک گروہ طالبان و لشکرجھنگوی کے ساتھ مصلحت پسندی کو وقت کی ضرورت و بہترین حکمت عملی سمجھتی ہے۔ عالمی سیاست کے بدلتی ہوئی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں اپنی خارجہ پالیسیاں عین بین الاقوامی سیاست کے اسٹریٹجک مفادات کے مطابق تشکیل دینے ہونگے، یعنی بلوچ قیادت کو امریکہ ، اسرائیل اور سعودی کے لابی میں اپنے آپ کو بحیثیت ایک فریق منوانا ہوگا۔ جیساکہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ اس کے لیے ایک منظم طاقت کی تشکیل لازمی ہے جو اس وقت تحریک کے اندر اس کے آثار کوسوں دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

پاکستان اسرائیل کے وجود کو بھی تسلیم نہیں کرتی لیکن حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظیم نے ایران کے خلاف خفیہ طریقے سے پاکستان کا دورہ کیا۔ اگر آج بلوچ قومی تحریک سے منسلک تمام تنظیمیں ایران کے خلاف اکٹھا ہوتے ، تو اس بات پر شک کی گنجائش نہیں ہوتا کہ اسرائیل پاکستان کے بجائے بلوچ قیادت سے آ ملتا جس طرح ایران کے خلاف اسرائیل کرد جنگجوؤں کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن افسوس کہ بلوچ قیادت بین الاقوامی سیاست کے خدوخال کو سمجھنے میں ناکام ہوچکی ہے یا اندرونی تذبذب و انتشار کے باعث خطے میں عالمی سیاست کے رخ کو اپنے حق میں موڑنے کے مواقع کو گواہ رہی ہے جو آگے چل کر اس کے منفی اثرات تحریک کو اپنے لپیٹ میں لے گی۔

ہر 50 یا 60 سال کے بعد دنیا میں بڑی جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ آج کے عالمی سیاست کے پیش نظر یہ بات صاف واضح ہے کہ دنیا میں بعض ایسی جغرافیائی تبدیلیوں کے رونما ہونے یقینی ہے جس کی کڑیاں عالمی طاقتوں کے مفادات سے پیوست ہیں۔ اس حقیقت سے بلا کون انکاری ہے کہ سی پیک پروجیکٹ کی تکمیل خطے میں انڈیا اور امریکہ کے لیے وبال جان بن جائیگی ۔اگر اس پروجیکٹ نے اپنی حتمی ہدف حاصل کیے اس کا مطلب یہ ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر انڈیا کی گھیراؤ تنگ کریگا، اور امریکہ کے خلاف روس پہلے سے ہی چین کے ساتھ شیر و شکر ہے یعنی سی پیک پروجیکٹ کی تکمیل خطے میں روس کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی بھی موجب بن جائے گی۔ اس منصوبے کے لیے روس پہلے سے ہی پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے میں مصروف عمل ہے۔ جبکہ روس کی اس خطے میں اثر و رسوخ امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ اس تجزیہ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ سی پیک کے خلاف امریکہ و انڈیا کے مفادات کی جڑیں بلوچ قومی تحریک کے ساتھ پیوست ہیں۔ لیکن یہاں پر سوال پھر وہی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ کیا خطے میں امریکہ اور انڈیا کے مفادات کو لیکر بلوچ قومی تحریک امریکہ و انڈیا کے لیے قابلِ حمایت ہے؟ اس حوالے سے بلوچ قیادت کو سوچنا چائیے ، جلد اپنی صفحوں میں ہم آہنگی پیدا کرکے ایک مضبوط اور منظم قوت کے شکل میں ابھر کر سامنے آنا ہوگا تاکہ خطے میں بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر بلوچ قوم اپنے قومی مفادات اور تشخص و بقا کو تحفظ دینے کیلئے اہل بن سکے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز