پنجشنبه, اکتوبر 10, 2024
Homeآرٹیکلزقومی تحریکوں میں قابض کے سرایت کردہ لوگ : تحریر زربار بلوچ

قومی تحریکوں میں قابض کے سرایت کردہ لوگ : تحریر زربار بلوچ

ہمگام کالم : قومی تحریکیں ، مذہبی دشت گردی اور انقلابی تحریکوں سے مختلف ہوتے ہیں ،انقلاب ایک ریاست کے اندر سے تبدیلی کا نام ہوتا ہے جو ریاست کے لوگ ریاستی سسٹم سے ناخوش ہوکر انقلاب کا راستہ اختیار کرکے اس سسٹم کو ختم کرکے نیا سسٹم متعارف کرواتے ہیں جسکو انقلاب اور تبدیلی کانام دیا جاتا ہے جس طرح بتیستا کی حکومت کو ختم کرکے ڈاکٹر چے اور فیڈر کاسترو نے سوشلسٹ انقلاب متعارف کروایا اور اس ملکی نظام کے اندر یہ انقلاب برپا ھوا ۔اسی طرح روس میں زار شاہی کی سلطنت کاخاتمہ کرکے سوشلسٹ لینن وغیرہ نے روس کے نظام کے اندر نیا نظام لاتے ہوئے انقلاب برپا کیا ۔چین میں ماوزے تنگ نے اس چینی نظام کے خلاف انقلاب برپا کرکے اس نظام کے خلاف اپنا نظام لایا ،مصر،اور سنٹرل ایشا میں گرین ،اورنج اور مختلف انقلابات آئے وہ ان ممالک کی ریاستی حدود کے اندر لائے گئے، اور ان لوگوں نے اپنے ملک کے سسٹم کو تبدیل کیا ،دوسرا مذہبی دہشت گردی ہے جس طرح سے القاعدہ ،طالبان اور بوکوحرام وغیرہ کرتے ہیں یہ لوگ دنیا میں دہشت پھیلا کر اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں ،یہ دنیا کی قانون اور اخلاقیات کا خیال نہیں رکھتے ۔ اور اس لیے زیادہ تر دہشت گرد قرار دیئے جاتے ہیں اور جب کوئی بھی ریاست انکے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا ہے تو اس ریاست کو بین القوامی سطح پر جواز حاصل ہوتا ہے کہ وہ ان کو بے دردی سے کچل لیں اور دنیا میں کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا ہے جس طرح پاکستان نے اپنے ملک کے خلاف کام کرنے والے طالبان کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کیا اور انکو بے دردی سے کچل دیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر کیے اور انکی خاموش نسل کشی کی لیکن دنیا نے مذمت کرنے کے بجائے پاکستان کو شاباشی دی ،حالانکہ وزیرستان سوات میں طالبان اتنے طاقتور تھے اور پاکستانی فوج کے اندر انکے لوگ تھے جو پاکستانی چھاونیوں اور اداروں کے اندر خوفناک اور خطرناک حملے کرتے تھے اور انکے تمام حملے کامیاب ہوتے تھے اور خودکشوں کا ایک بڑا دستہ انکے پاس تھا لیکن انکا طریقہ کار دہشت گردانہ تھا اور اگر وہ نیشنلزم اور قومی آزادی کے اصول کے تحت بین القوامی قانون کے تحت کام کرتے تو وہ پاکستان کو بہت ٹف ٹائم دے سکتے تھے مگر انکا طریقہ کار اور پالیسی غلط تھا اور اس طریقہ نے پاکستان کو جواز دیا کہ اس نے انکا قلع قمع کیا اور انکی خاموش نسل کشی کی ، انکی خاموش نسل کشی پرکسی بھی فورم سے کوئی بھی آواز انکے بارے میں نہیں آیا ،اسی طرح بوکو حرام کے خلاف جب طاقت استعمال کی جاتی ہے تو دنیا اس کی حمایت کرتا ہے کیونکہ انکی طریقہ کار دہشت گردانہ ہے لیکن دوسری طرف کسی قومی کے ایک آزاد ریاست کی بحالی کا تحریک انقلاب اور مذہبی دشت گردی سے مختلف ہوتا ہے اسکا ڈھنگ اور فطری صفات و ترکیب کلیتا اورقطعاََ مذہبی دہشت گردی اور انقلاب سے مختلف اور منفرد ہوتا ہے اس میں مظلوم کی جنگ ،سفارت کاری،سیاست ،پروپیگنڈہ سمیت سب کچھ سیاسی طریقہ کار کے تحت بین القوامی قوانین کے تحت ہوتا ہے اسکا مقصد ہوتا ہے کہ مظلوم و محکوم کا مسئلہ دنیا کی مسئلہ بن جائے اور ظالم جابر قابض کے خلاف دنیا اس کے تحریک کی اخلاقی ،سفارتی ،معاشی اور سیاسی حمایت کریں ،محکوم کوشش کرتا ہے کہ وہ قابض کو دنیا میں تنہا کریں اور اپنی مظلومیت کا پرچار کرکے قابض کے مظالم کو اپنے درست طریقہ کار سے قومی تحریک کے حق میں ہموار کرکے قابض کے مظالم کو آشکار کرسکیں جس طرح جدید دور اور روس کے ٹوٹنے کے بعد کوسووو ،مشرقی تیمور ،اریٹیریا ،اور بوسنیا وغیرہ نے ریاستی بحالی اور ریاستی تشکیل کی موومنٹ چلایا اور ان لوگوں نے اپنے تحریک کو بین القوامی قوانین کے تحت چلا کر دنیا کی معاونت اور مدد سے ان قابضین کو تنہا کیا اور اپنی جدوجہد کو کامیاب کیا ان لوگوں نے اپنی مظلومیت کی اتنی پرچار کیا کہ دنیا انکی تحریک کی طرف متوجہ ہوا اور جابر قابض کو مجبور کیا کہ انکی ریاست بحال کریں اور ان لوگوں نے دنیا کی مدد اور کمک سے اپنی ریاستوں کے تشکیل کی اور آج کے جدید دور میں کوئی احمق اور بے وقوف انسان ہی ہوگا جو دنیا کی مدد اور کمک کے بغیر آزادی حاصل کرنے کا سوچھے گا ۔ دنیا کی تاریخ ہے کہ جتنے بھی ممالک آزاد ہوئے انھوں نے کسی نہ کسی ملک کی کمک لیکر آزادی حاصل کی اگر فرانس نہ ہوتا تو امریکہ کی آزادی ناممکن تھا ،اگر ہندوستان نہ ہوتا تو بنگالیوں کی آزادی ناممکنات میں شامل تھا اگر امریکہ نا ہوتا تو کوسووو اریٹیریا ،جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی آزادی ناممکن تھی، لیکن یہ بھی نہیں کہ اپ جدوجہد نہ کریں گھر میں خاموشی سے بیھٹے رہیں دنیا آپ کو آزادی دیگا نہیں بلکہ آزادی کی کاروان چلتا رے گا اور اسکی کوشش ہوگی کہ وہ ایسا کام کریں کہ انکی جدوجہد کا سمت اور ہدف ایسا ہو کہ دنیا انکی مدد کریں انکے مسئلہ کو دنیا اپنا مسئلہ سمجھے تب جاکر دنیا اس تحریک کی حمایت کرے گا جس طرح مشرقی تیمور ،کوسووو ،اریٹیریا ،جنوبی سوڈان وغیرہ کا ہوا لیکن اگر کوئی قومی آزاد ریاست کی تشکیل کا جدوجہد کررہا ہے اور اس کا طریقہ انقلابی اور مذہبی دہشت گردی جیسا ہے تو وہ قوم لاکھوں جانوں کی قربانی دیں یا لاکھوں فوجی ماریں ان کی آزادی بہت ہی مشکل ہوگی۔ البتہ وہ نادان اور ناواقف لوگ اپنے قوم اور اپنی جہدکاروں کی مشکلات و مصیبت میں اضافہ کرسکتے ہیں لیکن قومی آزادی حاصل نہیں کرسکتے ہیں اس طرح سے اگر آزادی حاصل کرنا ممکن ہوتا تو تامل لوگوں نے دنیا کے قوانین کی خلاف کام کیا اور قومی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کی طرح جاری رکھی، حالانکہ انکی خود کش حملے ،ملٹری پاور انکی مجموعی طاقت نیم ریاست کے جیسی تھی ان لوگوں نے وزیر اعظم سے لے کر ،بڑے بڑے فوجیوں تک کو مارے انکے ہاں ہیلی کاپٹر تک کی سہولت موجود تھا لیکن انکی غلط پالیسیز نے ان کی تحریک کا ستیا ناس کیا اور وہ مضبوط تحریک دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے دہشت گرد قرار دیا گیا ان کی ہر کاروائی کو دنیا نے دہشتگرد مان کر باقی عالمی تنظیمیں مذمت کرتی رہی اور بعد میں سری لنکا کو جواز ملا اس نے اپنی ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور انکی خاموش نسل کشی کی اور دنیا خاموشی سے سب کچھ دیکھتی رہی کسی نے ان کے حق میں آواز نہیں اٹھائی اور انکی مضبوط موومنٹ تباہ ہوا ، اور آزاد ریاست کی بحالی کی تحریک کے لیے ہمیشہ کوسووو کا مثال دیا جاتا ہے کہ کوسووو میں چار ہزارلوگوں کی قربانی سے ان لوگوں نے اپنے بہترین حکمت عملی سے اپنا قومی آزادی حاصل کر لیا لیکن حماس ،تامل باقی بہت سے تحریکیں لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر بھی اپنی ریاست بحال نہ کرسکیں کیونکہ انکے طریقہ کار دہشت گردانہ اور غلط حکمت عملی پر مبنی تھا قومیں صرف قربانی سے آزادی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ان میں درست سمت سیاست ایمانداری،خلوص،حکمت عملی اور ثابت قدمی بھی ہونا چاہئے کوئی مالی بحران ہو تو کسی بھی ملک کی پراکسی بنا اپنے لوگوں کی مال مڈی چرانا اس طرح سے تو وہ تحریکیں جرائم پیشہ بن جاتی ہیں وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ،بلوچ قومی تحریک جس کی بنیاد حیر بیار مری نے 1996میں رکھا اسکو ساری دنیا کے لوگ سائنسی جدوجہد مانتے تھے اور یہ جدوجہد 2008تک مثالی جدوجہد رہا اور اس نے دنیا میں اپنی لوہا منوایا لیکن اسکے بعد پارٹی بازی ،شوق لیڈری،نمود و نمائش ،ہلڑ بازی اور طاقت کے غلط استعمال نے قومی تحریک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام لوگ اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے قومی تحریک کو صعیح ٹریک پر لاتے مگر عجیب تماشہ لگا ہوا ہے کہ اب تو اتحاد اور قومی یکجتی کے نام پر انتشار تقسیم درتقسیم کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے ،کسی کو بھی ان کی کیئے ہوئے غلطی پر جواب طلبی کیا جائے یا پارٹی سے معطل کیا جائے تو دوسرے دن وہ ایک مسلح اور سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کرتا ہے اور وہ لوگ اپنے غلط عمل کو جواز دینے کے لیے ایسے کام بھی کرتے ہیں کہ قومی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور بلوچ قومی تاریخ اس ناپسندیدہ اور ناقابل قبول انتشاری تقسیم درتقسیم کے عمل کوتحریک کے ضد کانام دیکر ان کرداروں کو اسی طرح یاد کریگا جس طرح ابلیس کو جوب طلب کیا گیا تو وہ نافرمان ہوا اور ابلیس کے کہنے پر ہابیل اور قابیل نے جس طرح پہلا قتل کیا پھر زندگی بھر ابلیس کے گردن پر لعنت کا طوق ہوا اور ان بھائیوں نے جو ایک دوسرے کا قتل کیا اب قیامت تک جتنے قتل ہونے ہیں تو آدھا گناہ انکے حصہ میں جائے گا اسی طرح بلوچ قومی تحریک میں اتحاد اور یکجہتی کے نام پر جو تقسیم درتقسیم کا سلسلہ جس بھی ابلیس جیسے کردار نے اپنے مفادات کے لیے شروع کیا اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں تو بلوچ قومی تحریک میں جو بھی کوئی تقسیم کاری کرے گا تو ابلیس کی طرح تقسیم کاری کی لعنت کا طوق اس بلوچ شیطان جہدکارکے گلہ میں ہوگا ،بلوچ قومی تحریک میں جس طرح معطل شدہ لوگوں نے اپنی غلط حکمت عملی کو جواز دینے کے لیے تنظیم و تحریک کو نقصان پہنچایا اسکا ازالہ سالوں تک نہ ہوتا اگر بی ایل اے کا ترجمان اور ہائی کمان ان کے کارکردگی کی مخالفت نہ کرتا۔ حالانکہ کوئی نادان بھی سمجھ سکتا تھا کہ صحافیوں کے خلاف کھل کر تنظیمی طاقت کا استعمال قومی تحریک کو ریاستی تشکیل کی جدوجہد سے نکال کر دہشت گردی کے زمرے میں شمار کرے گا لیکن ماسوائے بی ایل اے کے باقی معطل شدہ لوگوں سے لیکر یوبی اے بی ایل ایف سمیت سب نے اسکی حمایت کی اور سب کو معلوم ہے کہ اس کے غلط اثرات کی وجہ سے مہران مری کو سوئٹزرلینڈ بدر کرنا پڑا اور براہمدغ بگٹی سمیت بہت سے لوگوں پر دنیا نے سختی ڈالی، حالانکہ دنیا کو معلوم ہے کہ کون کیا ہے لیکن جب تحریک ریاست کی تشکیل کے لیے ہوتا ہے تو دنیا اس تحریک کی خاموش یا کھل کر حمایت کرتا ہے اور جب ریاست کی بحالی کی تحریک دہشت گردی کی شکل اختیار کرتا ہے تو دوسرے ریاست کے لیے جواز ہی ختم ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی حمایت کریں بلکہ الٹا وہ قابض کے بیانیہ پر تکیہ کرتے ہوئے مظلوم کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں جس طرح صحافیوں کے تحریک کش پالیسی کی وجہ سے ہوا اب کیا معطل شدہ ٹولی بی ایل ایف یا یوبی اے بتا سکتا ہے کہ صحافیوں کو مارنے اور انکے خلاف اوپن دھمکی دینے کا خیال کس کا تھا کیونکہ ریاست بہت جگہ اپنے ایک یا دو لوگ کسی ایک تنظیم میں سرایت کرتا ہے کہ وہ ایسے پالیسی بنائیں کہ جو تحریک کی مخالفت پر جائیں اور انکی وجہ سے قابض کو جواز ملے کہ وہ ایک ریاست کی بحالی کی تحریک کو دہشت گرد قرار دیں Stake-knife اسٹاکنیف برطانیہ کا مشور ایجنٹ تھا جس کو IRAکے اندر گھسایا گیااور اس نے برطانیہ کے بہت سے فوجی مارے تاکہ تنظیم میں اسکی ایمانداری اور خلوص پر شک نہ کیا جائے اور بڑے بڑے فوجی برطانیہ کے اسکے ہاتھ سے ماردیئے گئے تھے اور تنظیم میں اسکی پوزیشن بہت زیادہ اور اعلی مقام کا تھا لیکن اس نے تنظیم کی پالیسیوں کو تبدیل کروانے اور انکو غلط ٹریک پر ڈالنے کے لیے انتہائی مہارت سے کام کیا اور انکو اتنا نقصان پہنچایا کہ IRAجو ایک دور میں دنیا کی رول ماڈل تنظیموں میں ہوتا تھا اسکی پوزیشن کو ایک سرایت کردہ شخص نے اپنی پالیسیوں سے تباہ کیا ،امریکہ کی جنگ آزادی میں اعلی کمان پر کام کرنے والے بینڈکٹ ارنولڈ Benedict Arnold بھی امریکی جنگ آزادی میں جارج واشنگٹن کے بعد دوسرے نمبر پر تھا اور جارج واشنگٹن کو اس پر بے حد اعتبار تھا اور اسکوWest Point, New Yorkکا کمانڈ بنایا تھا اور امریکہ کی جنگ آزادی میں اس جگہ کو جنگ کرنے کے لیئے اعلی اعزاز حاصل تھا،برطانیہ کی فوج کے لیے اس جگہ کو قبضہ کرنا ناممکن تھا اور یہ جگہ امریکی جنگ آزادی میں گوریلوں کی پناہ کا کردار ادا کررہا تھا لیکن اس شخص کو دُشمن نے تنظیم کے اندر داخل کیا تھا تاکہ وہ انکی پالیسیاں تبدیل کریں اور ایسی پالیسیز بنائیں کہ جس سے تحریک کا ستیا ناس ہو کران کی تحریک پوری طرح سے ختم ہو ۔دشمن کی کسی بھی تنظیم میں داخل کردہ بندہ اپنی مکاری چالاکی دروغ گوئی اور سازشوں سے تنظیم اور قومی تحریک کو مستقل طور پر خطرات سے دوچار کرتا ہے اور قابض دشمن چاہتا ہے کہ ایسے لوگ اس طرح کے گوریلا کام کریں چاہئے ایک دو کام سے اسکے جنرل کرنل بھی مارے جائیں تاکہ لوگوں میں انکا یقین اور اعتماد قائم ہوں لیکن ان کے زریعے ایسے کام کریں کہ قومی تحریک کو بڑے نقصانات اٹھانا پڑے۔ اور قابض کو جواز ہو کہ وہ تحریک کو مکمل ختم کرسکیں امریکہ کی جنگ آزادی کی کامیابی اس لیے یقینی ہوا کیونکہ ان لوگوں نے اپنے اندر کے سرایت کردہ دشمن کی طرف سے بیھجے گئے جاسوس کو پہچان لیا لیکن آئی ار اے کو نقصان ہوا تامل لوگوں نے بہت بڑی نقصان اٹھایا کیونکہ اپنے اندر کے ریاستی ایجنٹس کو پہچاننے میں ناکام ہوئے کہ جنھوں نے پربا کرن جیسے جاہل ، نادان اور ناسمجھ لیڈر کو غلط رہنمائی کرکے انکی تحریک کا نقصان کیا ۔اب بلوچ قومی تحریک میں کچھ چیزیں کسی بھی طرح قومی تحریک کے حق کے میں نہیں یا تو قابض ایران یا کہ قابض پاکستان کی طرح سے داخل کردہ لوگوں کی وجہ سے وہ پالیسیاں بنوائی گئی کہ جس سے وقتی طور پر سال میں زیادہ سے زیادہ دو سوفوجی مار کرتحریک کو تقسیم درتقسیم کی جانب لے جانا اور صحافیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کہ جس سے یورپ میں ان تنظیموں کی حمایت یافتہ لوگوں کے لیے کام کرنا بھی مشکل بنایا گیا دوسرا چین کے کونسل خانہ پر حملہ کہ جس کی وجہ سے چین کے سب سے بڑے دُشمن امریکہ کو بھی مجبورا مخالفت کرنا پڑا ،برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور تو اور ہندوستان جو بلوچوں کے کسی بھی کام کی مخالفت نہیں کرتا تھا اس نے کھل کر اسکی مخالفت کی اور پاکستان کو تجویز دی کہ حملہ آوروں کوکچھل دیں اور انکے خلاف سخت ایکشن لیں اسکے بعد اس نے اپنے سیکورٹی کے ایڈوائزر اجیت ڈوئل کو چین بھیج دیا اور یقین دہانی کروائی کہ وہ اس طرح کے حملوں کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور حملہ اوروں کے خلاف چین کی مدد کرے گا پھر اس حملہ کے بعد شوشا کرنا اور نمود نمائش کرنا پھر افغان سرزمین میں ہونا یقیناوہ افغانستان کے لیے بھی مشکل پیدا کیا گیا ،کہ وہ انکی مدد کرسکیں اور اس نے خود چین اور پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرکے ضرور انکو راستہ سے ہٹادیا تاکہ وہ چین کو یقین دلاسکے کہ وہ بین القوامی قوانین سفارتی آداب اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سرپرستی اور مدد نہیں کرسکے گا اور اس واقع کے بعد ہندوستان کے اخبارات میں بھی آیا کہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے جو کام امریکہ سے پیسہ لینے کے لیے طالبان کو استعمال کرتے ہوئے کی اور امریکہ کو ڈرایا کہ اگر پاکستان نے انکے خلاف کام نہیں کیا تو یہ انکے مفادات کو نقصان دینگے بقول ہندوستانی لکھاری کہ ہوسکتا ہے کہ چینی سفارتخانے کے حملے میں پاکستان کا اپنا بھی پلاننگ ہوسکتا ہے جس سے اسکو چین سے پیسہ بھی ملے گا اور دوسرا بلوچ قومی تحریک کو بین القوامی سطح پر کاونٹر کرنے کیلئے جواز ملے گا۔ اب پاکستان اور چین اسی مسئلہ کو عالمی اداروں میں لے جارے ہیں تاکہ بلوچ قومی تحریک کو سری لنکا کے تاملوں کی طرح مکمل دہشت گرد قرار دیا جائے ،اب پتہ نہیں کہ یہ پلاننگ کس نے معطل شدہ ٹولہ کو دیا اگر اس پلاننگ اور صحافیوں کے مارنے کے خیال کا یہ لوگ خود باریک بینی سے دیکھیں تو اس شخص پر بھی نظر رکھیں یا تو وہ شخص انتہائی بے وقوف اور جزباتی ہوگا یا انکے ضرور کسی ناکسی طرح کے لنک بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ قابض اپنے مفادات کی خیال خود تنظیموں کے اندر ڈالتا ہے تاکہ وہ کام کرکے مکمل نقصان اٹھائیں لیکن جو دونوں کام معطل شدہ ٹولے نے کیے ہیں بلوچ قومی تحریک کی خوش بختی ہے کہ بی ایل اے کے ترجمان آزاد اور بی ایل اے کے ہائی کمان نے پہلے ہی ان چیزوں کی میڈیا میں مذمت کی اور بی ایل اے قومی تنظیم میں مادر تنظیم ہے اور اسکے بیانات کے اچھے اثرات ہونگے کیونکہ کردوں پر جب پابندی لگی تھی تو ابھی اس پر تحقیق ہو رہا ہے کہ ان لوگوں نے منشیات کا کاروبار اور باقی بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔ یا نا تو کردوں کی تنظیم نے ہمارے معطل شدہ ٹولوں کی طرح اپنے باقی تنظیموں کے غلط کام پر اس وقت بیانات دیئے تھے انہی بیانات کو وہ پیش کررے ہیں تاکہ انکی پابندی ہٹ جائے اور وہ ذمہ دارانہ بیانات انکی تنظیم کے حق میں جارہا ہے بی ایل اے نے صحافیوں اور معطل شدہ ٹولہ کی غلط کاروائیوں پر جو بیانات دیئے کل کو اگر یہ جو بھی گند کرتے ہیں اس سے قومی تحریک کی کم از کم ساکھ کو ضرور نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے ۔اس لیے پاکستانی میڈیا خود بھی باربار کہتے رہے ہیں کہ یہ معطل شدہ ٹولہ بی ایل اے سے الگ باغی اور ایک ٹولہ ہے لیکن ٹولہ کے باوجود وہ بی ایل اے کی ہائی کمان کا نام لیتے ہیں انکو معلوم ہے کہ اس وقت اسکی پالیسیز اور پروگرام تحریک کے مفادات میں ہیں وہ لوگ دو سال سے تنگی، غربت،مفلسی برداشت کررے ہیں لیکن کسی کی پراکسی نہیں بنے کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوئے ہیں ۔اور قابض ریاست انکی پالیسیوں کو اپنے سرایت کردہ یا کہ سرنڈر شدہ لوگوں کے زریعے موڑنے میں ناکام ہوا ہے ، حالانکہ معطل شدہ ٹولہ نے اپنے چار لوگ خود کش میں استعمال کیے لیکن تحریک کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا صرف یہ جواز دینا کہ ایک ہفتے میڈیا میں آنا اگر میڈیا کے لیے کام کرنا ہو تو کوئی بھی تنظیم کراچی لاہور اور کسی جگہ مواد رکھ کر دو سو سے پانچ سو لوگ دہشت گردوں کی طرح مار سکتا ہے اور وہ پورے مہینے میڈیا میں ہونگے لیکن انکے اثرات کیا ہونگے حالانکہ یہ دو کام کرکے چار بندے استعمال کئے لیکن مجموعی طور تحریک کا نقصان کیا فائدہ نہیں پہنچایا کہ بی ایل اے کے ایک کام جو گوادر میں ہوا کہ جس نے پاکستان اور چین کی سرمایہ کاری کو ناکام کیا اور بی بی سی کے ہاٹ ٹاک جو دنیا کی مشہور تریں میڈیا ہے اس نے دو خود کش اور بڑی بڑی کاروائیوں کے باوجود پاکستانی وزیر سے سوال کیا اور اسکو رسوا کیا تو اس کاسوال تھا کہ پاکستانی وزیر کیا تمھیں اس کاروائی نے پریشان اورالجھن میں نہیں ڈالا کہ تم لوگوں نے بیس سے زیادہ ممالک کے سو نمائندوں کو گوادر بلائے کہ آکر وہاں سرمایہ کاری کریں اور اتنی سخت سیکورٹی میں چار بندے اکر تمھارے لوگوں کو مار کر پھر چلے گئے یہ ایک واقع پورے سال کی تمام کاروائیوں سے موثر ترین تھا اسے کہتے ریاست کے بحالی کی تحریک جو بلوچ قومی تحریک کے حق میں اثر ڈالتا ہے ،بی ایل اے نے ایک خود کش کیا لیکن اج تک کوئی بھی اسکا ریکارڈ نہیں توڑ سکا ہے کہ اس نے شفیق مینگل جیسے غاصب اور درندے شخص کا غرور خاک میں ملایا اور نہ اسکی پبلسٹی ہوئی اور سال تک کسی کو معلوم بھی نہیں ہوا کہ شہید درویش کا اصلی نام کیا تھا اسکی فیملی کو محفوظ کیا گیا اور اسکے کام نے صعیح نتیجہ دیا اور اسکو کسی نے ناکام کاروائی نہیں کہا ،کیونکہ بی ایل اے جذباتی فیصلہ نہیں کرتا ہے اور وہ ہر کام کرتا ہے اسکے تمام منفی اور مثبت اثرات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے اس لیے اسکے نتائج مثبت ہوتے آرہے ہیں ۔BLA قومی آزادی کی خاطر بنا ہے اور آزادی تک مشکلات اور مصائب کے باوجود یہ اپنا فریضہ ضرور ادا کرے گا۔ اور ہم جیسے لوگ جو BLA کے حمایتی ہیں ہمیں اس کے ہائی کمان کی دواندیشانہ ،پالسییوں اور مضبوط موقف نے متاثر کیا ہوا ہے ،حالانکہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بی ایل اے کے حقیقی لوگ دو سالوں سے غربت ، تنگ دستی برداشت کررہے ہیں لیکن اپنے موقف قومی پروگرام اور پالیسیوں کو تبدیل کرکے باقیوں کی طرح ایران کے پراکسی نہیں بنے ہیں چوری چکاری نہیں کررے ، منشیات کے دندھے میں شامل نہیں ہیں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں جیولیس فیوچک نے کہا ہے کہ جس طرح آگ لوہے کو فولاد اور لکڑی کو راکھ بناتا ہے اسی طرح سخت حالات معاشی تنگی مشکلات مصائب ایک حقیقی جہدکار کو فولاد بناکر سالم و مضبوط بناتا ہے جبکہ ایک کمزور جہدکار کو راکھ بناکر سرنڈر شدہ یا ایرانی پراکسی بناکرناتمام اور ادھورا چھوڑ دیتا ہے ،ان مشکلات مصائب اور سختیوں سے گزر کراپنے پروگرام اور مضبوط موقف پر قائم رہ کر ہی حقیقی اور فکری جہدکار ہی قومی ریاست کی تشکیل کو ممکن بناسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز