دوشنبه, نوومبر 25, 2024
Homeخبریںلاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1889دن ہو...

لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1889دن ہو گئے

کراچی(ہمگام نیوز) اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ یکجہتی کونسل کے چیئرمین واجہ عبدالوہاب بلوچ ، زاہد بگٹی سمیت وفد کے ساتھ لاپتہ شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔اور انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کا لانگ مارچ کے شرکاء جہاں جہاں سے گزرے وہاں سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوتے گئے۔ کیونکہ اُن کا نظم و ضبط منظم و موثر تھا۔اچھی نظم و ضبط لوگوں کو ساتھ دینے پر مجبور کرتی ہے۔وہ اس سچ عمل کے ساتھ دیں جب کامریڈ ماؤ کی لانگ مارچ دیہاتوں سے گزرتا تو اس وقت کھیتوں کے پھل تیار تھے، درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے،لیکن کسی ایک نے ہاتھ تک نہیں لگایا،اور اگر کہیں سے اگر کچھ لیتے تھے تو اس کے پیسے فوراََ ادا کردیتے تھے۔اس سے کسان بھی بہت خوش ہوتے تھے۔یہ لانگ مارچ جہاں جہاں سے گزرا وہاں لوگوں کو بیدار کرتا گیا۔اس لانگ مارچ نے سندھ کے فرزندوں کو نیا جذبہ دیا اور عام سندھی کو یہ احساس دلایا کہ عمل سے ہی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔تو سندھی محکوم عوام نے بھی اپنے اغواء شدہ فرزندوں کی تصویروں کو اپنے ساتھ لیکر لانگ مارچ کا استقبال کرتے رہے،سندھی بھی پاکستانی جبر کے شکار ہیں،آج بھی عام سندھی کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، یہاں حق کی بات کو کوئی برداشت نہیں کرتا۔ ان کو اُٹھا کر غائب کیا جاتا ہے،ان کی لاشیں ان کے قوم کو تحفے میں بھیجے جاتے ہیں یا ان کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا جاتا ہے۔یہ ظالم قابضین کی دستور ہے وہ اپنے نوآبادیاتی علاقوں میں زانت کار، عالم ، اُستادکو ایسے نہیں چھوڑتے جس طرح بلوچ اسٹوٖڈنٹس کے چیئرمین زاہد بلوچ، سابقہ وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ،ڈاکٹر دین محمد بلوچ، ثناء سنگت بلوچ، جلیل ریکی بلوچ،غلام محمد بلوچ،شفیع بلوچ، کمبر چاکر بلوچ، سمیت ایسے ہزاروں فرزند جو کہ عالم زانت کار و دانشور تھے ، ان کو اغواء کردیا گیا ہے۔ جن میں بہت سے سیاسی جُہد کاروں کی تشدد زدہ لاشیں بعد میں برآمد ہوئی ہیں۔وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور سمی بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اس بات حیران نہیں کہ اس کے ظلم و جبر اس طرح کیوں ہیں۔مگر ہم اپنے سیاسی کارکنوں کے لئے اس جدوجہد میں کردار اد ا کررہے ہیں،سیاسی جدوجہد کے پاداش میں انسانیت کی بقاء کے لئے جدوجہد کے پاداش میں پاکستانی اذیت گاہوں میں ہیں،جن میں بی ایس او آزاد کے چئیرمین زاہد بلوچ،سابقہ وائس چئیرمین زاکر مجید بلوچ، بی این ایم کے ڈاکٹر دین محمد غفور بلوچ رمضان بلوچ، صادق جمالدینی بلوچ، شامل ہیں، جو حق کے واسطے لکھتے اور بولتے رہے، اس لئے حکمرانوں کو پسند نہیں تھے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز