شام کی خانہ جنگی کے چار سال پورے ہونے پر امریکی وزیرِخارجہ جان کیری کے متنازع بیان نے ایک بار پھر شام کے بارے میں امریکہ کی ایک واضع پالیسی کے فقدان کو اجاگر کیا ہے۔
اتوار کو سی بی ایس نیوز چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ شام کے صدر بشارالاسد سے مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’آخرکار ہمیں مذاکرات کرنے ہی ہوں گے۔‘
2012 میں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔
جان کیری کے اس بیان کا یہ مطلب لیا گیا کہ امریکہ شامی صدر سے براہراست مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ان کے اس بیان کی شامی حزبِ اختلاف اور امریکہ کے اتحادیوں نے مذمت کی ہے۔
امریکی محکمہ داخلہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ محکمے کے نائب ترجمان نے سماجی رابطوں کی سائٹ ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’جان کیری نے کہا کہ ہماری درینہ پالیسی ہے کہ ہم مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ شام میں صدر اسد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘
لیکن جان کیری کے جواب سے امریکی انتظامیہ کی اس سوچ کی بھی عکاسی ہوتی ہے جو خطے کے پیچیدہ حالات کی وجہ سےاسے اپننا پڑی ہے۔
ایک حالیہ بیان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن نے خبردار کیا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد دولتِ اسلامیہ شام پر قبضہ کر سکتی ہے۔
’ہم دمشق پر دولتِ اسلامیہ کا قبضہ کسی صورت نہیں چاہتے اس لیے یہ ضروری ہے کہ اعتدال پسند حزبِ اختلاف کو مظبوط بنایا جائے۔‘
خیال رہے کہ آنے والے چند ہفتوں کے دوران پینٹاگن کی جانب سے خطے میں چار مختلف مقامات پر اعتدال پسند شامی باغیوں کو فوجی تربیت فراہم کرنی شروع کر دی جائے گی۔
شام کی سرکاری فوج کی جانب سے حالیہ بڑی کارروائیوں کے باوجود جنوبی محاذ نامی گروہ کے باغی جنگجو دمشق سے صرف 35 کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔
لیکن شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ امریکہ باغیوں کو وہ اس پیمانے پر مدد فراہم نہیں کر رہا جو دمشق پر قبضے کے لیے ضروری ہے۔
اگر باغی مضبوط ہوں گے تو بشارالاسد مذاکرات کرنے پر مجبور ہوں گے۔
جنوبی محاذ سے منسلک ایک سیاسی کارکن منان عبدالسلام کا کہنا ہے کہ ’ امریکہ جنوبی محاذ کی فوجی کامیابیوں سے ڈرگیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ ہو اسے ڈر ہے کہ دولتِ اسلامیہ شام میں اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔
واشنگٹن میں موجود اکثر ممالک کے سفیر یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی شام سے متعلق پالیسی ایک بارے میں ایک ہی چیز واضع ہے کے اس کی کوئی ایک واضع پالیسی نہیں ہے۔
امریکی حکومت کی تمام تر توجہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ پر ہے اور اس کے خلاف کی جانے والی زیادہ تر فضائی کارروائیاں عراق کے اندر کی جاتی ہیں۔
کرد علاقائی حکومت کے لیے امریکی حکومت کی نمائندہ ’بیان سمیع عبد الرحمان‘ کا ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ اگر ہم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں شام کے لیے بھی حکمتِ عملی بنانا پڑے گی، ہم دولتِ اسلامیہ کو عراق سے نکال سکتے ہیں لیکن شام میں اس کے محفوظ ٹھکانے موجود رہیں گے جہاں اس کو تیل کی فراہمی سمیت دیگر سہولتیں میسر ہیں۔‘
اگر مذاکرات ہی شام کے تنازعے کے حل کا واحد راستہ ہے تو یہ بات بھی مدِنظر رکھنی چاہیے کہ چار سالوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے شامی ریاستی اداروں میں بری طرح توڑ پھوڑ ہوئی ہے جو مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل میں کسی طرح مدد گار ثابت نہیں ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام کی مسلح افواج اس جنگ کی وجہ سے بلکل تباہ تو نہیں ہوئیں مگر بحثیت ادارہ وہ مکمل طور پر بدل چکی ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے ایمائیل ہکویم کا کہنا ہے کہ ’اسد حکومت کے بچاؤ کے لیے ضروری تھا کہ شامی افواج بغاوت کو چلنے والی ملیشیا کے طور پر اپنے آپ کو ڈھالیں، پر اگر اب صدر اسد مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل بھی کرنا چاہیں تو ان کے پاس سیاسی فیصلے کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے کیونکہ ان کی بقا کا دآرومدار بہت سے مسلح گروہوں پر ہے جن کے مفادات صدر اسد سے مکمل طور پر نہیں ملتے۔‘
صدر اسد کے اب بھی اقتدار میں ہونے کی وجہ ان کے اہم حامی ایران کا کردار بھی ہے۔
سیاسی کارکن منان عبدالسلام نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ بہت سے باغی یہ سمجھتے ہیں کہ شامی افواج کے ساتھ معاملات طے پہ سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
’شامی افواج کے شیعہ ملیشیااور ایرانی جنگجوں کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے ان کو قابض افواج کے طور پر دیکھا جائے گا اور ایسی صورت میں مصالحتی کوششوں میں مشکل درپیش آے گی۔‘