لاہور (ہمگام رپوٹ ) رپورٹ کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی کے چیئرمین محمد نعیم نے کینسر کے مریضوں کیلئے خصوصی ( انمول INMOL ہسپتال ) میں چار نئی مشینوں کا افتتاح کیا، اس موقع پر چیئرمین نے انمول سائیکلوٹران میں دوعلاج کی تکنیکنوں (Carbon-II, Nitrogen-13) کا بھی افتتاح کیا۔ چار نئی مشینوں میں سٹیٹ آف دی آرٹ ریڈیشن مشین لائنک، ایم آر آئی، سپیکٹ سکین اور ڈیکسا سکین شامل ہیں۔
افتتاحی تقریب کے موقع پرممبرسائنسز ڈاکٹر مسعود الحسن، ڈائریکٹر انمول ڈاکٹر ابوبکرشاہد، ہیڈ میڈیکل فزکس مسز معصومہ ریاض، ڈائریکٹر ایڈمن جاوید خالد، ہیڈ نیوکلیئر میڈیسن ڈاکٹر آرزو فاطمہ، ہیڈ ریڈیالوجی ڈاکٹرذیشان،ڈاکٹر عرفان اللہ خان، ڈاکٹرز، سائنسدان، نرسز، ٹیکنیکل سٹاف اور دیگر سٹاف کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن محمد نعیم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کے 80فیصد مریضوں کا علاج پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے18 میڈیکل سنٹرز میں ہوتا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ انمول ہسپتال کا اپ گریڈ ہونا کینسر کے مریضوں کیلئے مزید سہولت اور آسانی ہوگی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ
انمول پبلک سیکٹر کا پہلا ہسپتال ہے جس میں اتنی بڑی سہولیات عوام کو ارزاں نرخوں پر عمدہ طریقے سے مہیا کی جا رہی ہیں۔ انمول کے ساتھ ساتھ ہمارے دیگر 18 سینٹرز میں سے بھی مختلف سنٹر اپ گریڈ ہو رہے ہیں۔ انمول نے ریسرچ کے ذریعے کینسر کے مریضوں کیلئے کئی نئی تکنیک ایجاد کی ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔
قبل ازیں ڈائریکٹر انمول ڈاکٹر ابوبکر شاہد نے چیئرمین اٹامک انرجی محمد نعیم کو انمول ہسپتال کے بارے میں تفصیل سے بریف کیا۔ ڈاکٹر ابوبکر شاہد نے بتایا کہ انمول میں ہر سال ہزاروں مریض کینسر اور دیگر ٹیسٹوں کیلئے آتے ہیں۔ ہم پبلک سیکٹر میں ریڈیشن ڈیپارٹمنٹ میں سب سے پہلے آئی ایم آر ٹی کر رہے ہیں۔ڈائریکٹرانمول کا کہنا تھا کہ کاربن 11 اور نائٹروجن 13 کے ٹارگٹس کے افتتاح کے بعد دماغ کے سرطان اور دل کے امراض کی تشخیص میں بہت بہتری آئے گی اور یہ پاکستان میں سہولت پہلی بار انمول ہسپتال میں شروع کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ انمول ہسپتال پانچ مختلف ڈیپارٹمنٹ میں ایف سی پی ایس بھی کروا رہا ہے جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
ان چاروں نئی مشینوں کے آغاز کے بعد امید ہے کہ مریضوں کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اس کے بعد چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن محمد نعیم نے ہسپتال کا تفصیلاً دورہ بھی کیا۔
واضع رہے 28مئی 1998کو پاکستان نے انڈیا کے مقابلے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکہ کیئے تھے۔جس کی تابکاری سے پورا بلوچستان عمومی چاغی و اس کے گردو نواع خصوصی طور پر اس کے خطرناک منفی اثرات سے متاثر ہوئے تھے۔جس میں آب و ہوا و درجہ حرارت میں اضافہ،بارشوں میں کمی،خشک سالی و قحط سالی،جانوروں کا مرنا اور زراعت پر منفی اثرات و خصوصی طور پر بلوچستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ و علاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے کی برابر ہے۔ یوں تو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیلئے بلوچستان کو مختب کیا،جبکہ کینسر کے لیئے نئے اور جدید ہسپتال پنجاب و کراچی میں تعمیر کیئے گئے۔جن میں نمایاں طور پر 5 بڑے ہسپتال قابل زکر ہے،جن میں نمبر1 شوکت خانم ہسپتال لاہور نمبر 2 بیت السکون ہسپتال کراچی نمبر 3 کرن کینسر ہسپتال کراچی نمبر 4 نیوکلیئر میڈیسن آنکالوجی اینڈ ریڈیوتیھراپی انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد نمبر 5 انمول انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ آنکالوجی لاہور ہسپتال خصوصی طور پر نمایاں ہیں۔ جہاں بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کیلئے ٹرانسپورٹیشن اور رہائش کی اخراجات کینسر کے مرض جتنا مصیبت سے کم بھی نہیں۔