اسلام آباد (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان قابض فوج کی تحویل سے بھاگنے میں کامیاب۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو پیغام میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
تاحال آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ مذکورہ پیغام میں موجود آواز احسان اللہ احسان کی ہے یا نہیں۔
ذرائع کے مطابق جب ذرائع ابلاگ کے نمائندوں نے اس مبینہ آڈیو پیغام میں کیے گئے دعوؤں پر رد عمل کے لیے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا گیا تو فوجی ذرائع نے اس دعویٰ کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
سوشل میڈیا پر شئیر کیے گئے احسان اللہ احسان کے مبینہ آڈیو پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے بعد انھوں نے خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے
کر دیا تھا‘۔
اس مبینہ آڈیو پیغام میں احسان اللہ احسان نے مزید کہا کہ انھوں نے تین برسوں تک قابض فوج نے اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن سکیورٹی اداروں نے انھیں بیوی بچوں سمیت قید کر لیا تھا۔
اس پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ان تین برسوں میں پاکستانی فوج نے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اور معاہدے کی خلاف ورزی کی‘ جس کے بعد وہ ’اپنی رہائی کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوئے‘۔
دو منٹ طویل اس آڈیو پیغام کے مطابق احسان اللہ احسان مبینہ طور پر 11 جنوری کو بھاگنے میں کامیاب ہوئے مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی اداروں اور فوج کے بارے میں اور اپنی گرفتاری اور فرار کے بارے میں مزید تفصیلات بعد میں دیں گے۔
بلوچ سیاسی ورکر اس پر رد عمل دیتے ہوئے اس کو قابض فوج کی جانب سے ایک گھناؤنی چال سمجھتے ہیں۔ یہ انہی کے پیدا کردہ سرمایہ ہیں جن کو بوقت ضرورت پاکستان انہیں اپنے مقاصد اور دنیا کو بلیک میل کرنے کےلئے یہ سب کیا کچھ کررہا ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ پشتون علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ ) PTM) کے ابھرنے اور پشتونوں میں قومی سوچ کو آتا دیکھ کر قابض فوج حواس باختگی کا شکار ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ پشتون علاقوں میں اپنے پالے ہوئے دہشت گردوں کے ذریعے ایک دفعہ پھر پشتون سرزمین پر خون کی ہولی کھیلنا چاہتا ہے تاکہ پشتونوں کی اپنی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد اور قومی سوچ کو دبایا جاسکے۔