کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اٹھائیس مئی کو یوم سیاہ (یوم آسروخ) کےمناسبت سے کہا ہے کہ ہر سال کی طرح بلوچ قوم اس دفعہ بھی یوم سیاہ منائے گی۔ آجسے بائیس سال پہلے پاکستان نے بلوچ سرزمین پرایٹمی دھماکے کرکے چاغی کے عظیم راسکوہ کو ہمیشہ کے لئے راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ 1998 میں پاکستان نے جب بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں جوابی دھماکے کا اعلان کیا تو اس تباہ کن مقصد کے لئے قبضہ گیریت کے قہر سے دوچارمقبوضہ بلوچستان کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا۔ اس دوران نہ انسانی آبادیوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیااور نہ ہی حفاظتی تدابیر اختیار کی گئیں بلکہ بہت سے آبادیوں کومطلع تک نہیں کیا گیا۔ صرف پندرہ دنوں میں بھارت کا جواب دیا گیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ کس طرح غیر محفوظ طریقے سے کئے گئے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے پاس چولستان جیسا غیر آباد ریگستانی علاقہ بھی موجود ہے لیکن انہوں نے بلوچ قوم کی نسل کشی اور مشکلات میں اضافہ کرنے کے لئے ایک آباد علاقے کاانتخاب کرکے ایک وسیع خطے کو راکھ میں تبدیل کر دیا۔ آج تک ان دھماکوں کے تابکاری کے اثرات بلوچستان میں تباہ کاری پھیلا رہے ہیں۔ دھماکوں کے لئے چاغی کا انتخاب واضح کرتا ہے کہ پاکستان کو یہاں موجود عام آبادیوں سے کوئی غرض نہیں تھا بلکہ انہیں تباہی کےگہری کھائی میں دھکیلنا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ ایک مقبوضہ سرزمین چاغی میں ایٹمی دھماکے انسانی و قومی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ضلع چاغی میں بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کے باعث وسیع علاقےمیں جو تابکاری پھیل گئی تھی، اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ لاکھوں نفوس پرمشتمل بہت سے دیہاتوں میں جوہری تجربات کی وجہ سے لوگوں کے لیے پینے کا صاف پانی ناپید ہو چکا ہے۔ تابکاری سے ماحول میں تباہ کن تبدیلی آئی ہے جس سے لوگوں کے اربوں مالیت کے باغات اور مال مویشی تباہ ہو چکے ہیں۔ شدید خشک سالی کی وجہ سے لوگ مجبوراََوہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان دھماکوں سے انسانی زندگی، موسم، ماحول اور حیوانات سبھی نہایت متاثر ہوئے ہیں۔ تابکاری اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دو دہائیوں سے یہ علاقے قحط سالی کا شکار ہیں۔صدیوں سے رواں دواں چشمے سوکھ گئے ہیں۔ بارشوں کا سلسلہ رک گیاہے۔ خشک سالی اور اس کے نتیجے میں جنگلی حیات اور چراگاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ بلوچستان کے طول و عرض میں کینسر ایک وبا کی طرح بلوچ فرزندوں کو نگل رہا ہے۔ جلد کا کینسر،آنکھوں کی بیماریاں، معزور بچوں کی پیدائش اور malnutrition، خواتین میں premature birthاور low birth weight بچوں کی پیدائش معمول بن چکی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ قوم اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کے اس واقعے کو ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کرتی ہے اور اس کے خلاف روز اوّل سے ہی بھر پور احتجاج کرتی آرہی ہے۔ اس سال کرونا وائرس کوویڈ 19 کی وجہ سے بی این ایم ایک آن لائن اجلاس کا انعقادکرے گی۔ اس میں بلوچستان اور بیرون ملک سے کارکنان اور ہمدرد شرکت کریں گے۔اجلاس میں مقررین پاکستانی سفاکیت، جوہری تجربات، تابکاری اور اس کے اثرات پرروشنی دالیں گے۔
بی این ایم کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم بحیثیت قوم اقوام عالم اور ”آئی اے ای اے“ (International Atomic Energy Agency) سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں تابکاری کاجائزہ لینے کیلئے ایک تحقیقاتی ٹیم بھیج کر چھان بین کی جائے۔ دوسرے عالمی ادارے پاکستان کی غیر ذمہ دارانہ طریقہ کار پر پاکستان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ ایٹمی دھماکوں کےحوالے سے آگاہی فراہم کرنا اور اس گھناؤنے عمل کی مذمت کرنا ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام پہنچانا مقصود ہے کہ بلوچ قوم نہ صرف پاکستان کے جوہری دھماکوں کے تباہ کن نتائج کا سامنا کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے جوہری بم پوری دنیاکے وجود اور بقا کے لئے واضح خطرہ ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں اقتداراعلیٰ نہ صرف مذہبی جنونی اور دہشت گرد فوج کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستانی جوہری بم کے خالق ڈاکٹرعبدالقدیرمیڈیا کے سامنے یہ اقرار کرچکے ہیں کہ وہ ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث رہ چکے ہیں۔ حقیقت میں ڈاکٹر قدیر کو موردالزام ٹھہرا کر ریاست کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام ریاست کی ہے۔ اس بات کا قوی امکانات موجود ہیں کہ ریاست پاکستان آج بھی یہ کام کر رہا ہے۔ خطہ، دنیا اور عالم انسانیت کی تحفظ وسلامتی کے لئےضروری ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی تحویل میں لیاجائے۔ یہ ہتھیارکسی بھی دنیا کے لئے تباہی کا سامان بن سکتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بی این ایم کی جانب سے سوشل میڈیا میں اٹھائیس مئی کو ایک آن لائن آگاہی مہم #NukeAfterMathInBalochistan کے ہیش ٹیگ سے چلایا جائیگا۔ ہم تمام انسان دوست، بلوچ سیاسی کارکنان اور انسانی حقوق کے کارکنان سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے کمپئن میں شرکت کرکے انسان دوستی کا ثبوت دیں۔