کوئٹہ (پریس ریلیز ) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 11 اگست بلوچستان کی تاریخ میں ایک اہم اور مبارک دن ہے۔ اس دن بلوچ گلزمین کے سپوتوں نے برطانوی سامراج کی طویل غلامی اور قبضے سے چھٹکارا پاتے ہوئے اپنی تاریخی شناخت اور آزاد حیثیت کو منوایا تھا۔
آزادی جیسے عظیم مقصد کے حصول کے پاداش میں ہمارے آبا و اجداد نے بیش بہا قربانیاں دیں، کئی جگہوں پر قابض دشمن پر کاری ضرب لگائے اور بلوچ وطن کی دفاع میں اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں جام شہادت نوش کر گئے۔ آج انہی بلوچ شہدا کی مرہون منت ہے کہ بلوچ دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔
ایف بی ایم نے کہا کہ شہید نڈر، دلیر اور بلوچ ہیرو نواب مہراب خان اور ان کے جانباز ساتھیوں نے بلوچ گلزمین پر انگریزوں کی یلغار کو للکار کر میدان جنگ میں دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور جام شہادت نوش کی۔ وہ بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ ان کی تقلید کرتے ہوئے بلوچ غیور فرزندوں نے آزادی کے کارواں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔
تاریخ کے پنوں کو پلٹ کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوہستان مری میں نواب خیربخش مری اوّل (جو نواب مری کے دادا تھے) نے انگریزوں کی بگھی کو کھینچنے سے صاف انکار کرتے ہوئے انگریز حکمران کی تابعداری نہ کرکے بلوچ قوم کا سرفخر سے بلند کیا۔
مری بلوچوں کا انگریز کی بلوچستان پر قبضہ کے خلاف مزاحمت اور گوریلا جنگ نے برطانوی فوج کو لوہے کے چنے چبوانے پر مجبور کردیا۔ اس دوران کئی معرکے ہوئے جن میں جنگ گنبد، جنگ ہڑپ اور جنگ ساڑت آف میں بلوچوں کی بہادری کی روشن مثالیں تاریخ کے سینے پر سنہرے حروف میں درج ہیں۔
انگریزوں کے خلاف بلوچ گوریلا جنگجوؤں کی حکمت عملی، مصمم ارادوں نے بالاخر انگریز حکمرانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ بلوچستان میں جبری طور پر قیام کرنے اور یہاں کے ساحل و وسائل کو ہتھیانے کی پالیسی پر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو پائینگے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے پنجابی حکمران اپنی میڈیا کے ذریعے جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں سے لڑ کر یا قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا تھا ان کے اس قسم کے دعوے لغو اور ڈکھوسلے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ برصغیر میں اس وقت جب ہندوستان اور بلوچستان کی عوام مزاحمت کررہی تھی تو دوسری طرف پنجابی انگریز کی فوج میں بھرتی ہوکر ہندوستان کی تحریک آزادی کو کمزور کرنے کی کو شش کرتے رہے۔ بہت سے پنجابی انگریز فوج کی مخبری اور کرائے کے قاتل کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔
پاکستانی پنجابیوں نے کبھی بھی کوئی قربانی نہیں دی۔ برطانیہ جب برصغیر سے شکست کھاکر جارہا تھا تو ہندوستان اور بلوچستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ بلوچستان نے 11 اگست 1947 کو اپنی آزادی کا اعلان کیا جو آل انڈیا ریڈیو پر باقاعدہ نشر ہوا اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں بھی شائع ہوا تھا۔
انگریزوں کے بلوچستان سے جانے کے بعد پاکستان جیسے مکار، دھوکے باز اور فسادی پنجابیوں نے بلوچستان کے وسائل کو ہڑپ کرنے اور ہماری جغرافیہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ پنجابیوں کو علم ہوگیا تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد پاکستان کے پاس بری، بحری اور فضائی راستوں سے سنٹرل ایشیاء، مشرق وسطی اور یورپ کی تجارتی منڈیوں تک پہنچنے کے لیے بلوچستان کی ضرورت پڑے گی لہذا انگریزوں کے پالے ہوئے ایجنٹ محمد علی جناح نے اس وقت کے بلوچستان کے حکمران خان آف قلات میر احمد یارخان پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا تھا تاکہ ان کے ذریعے خطے کا اہم ترین گزرگاہ بلوچ بندر گاہیں اور معدنی دولت سے مالامال بلوچستان پر قبضہ جمایا جاسکے۔
تاریخی دستاویزات اس بات کے گواہ ہیں کہ جناح نے سفارتی ذرائع کے ذریعے خان قلات کو پیغامات بھیجے کہ کیوں نہ بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا جائے؟ایسی ہر پیشکش کو خان قلات اور بلوچوں کے اس وقت کی قیادت نے ٹھکرا دیا تھا۔ بلوچستان کی دونوں ایوانوں (ایوان زیریں اور ایوان بالا) نے متفقہ طور پر بلوچستان کو پاکستان میں ضم کرنے کی پاکستانی پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔
فری بلوچستان موومنٹ نے کہا کہ پاکستانی فوج نے جناح کے حکم پر خان قلات سے 27 مارچ 1948 کو زبردستی الحاق کے دستاویزات پر دستخط کروائے اور ریاست قلات پر چڑھائی کی۔ قلات کے محل پر بھاری توپ خانوں اور ٹینکوں کے ذریعے گولہ باری کی، قلات پیلس پر نصب بلوچستان کے جھنڈے پر گولے برسائے۔ اسلام اور مسلمانیت کا ڈھونگ رچانے والے پنجابی پاکستانی فوج نے قلات جارحیت کے وقت وہاں موجود مسجد کو بھی نہیں بخشا، مسجد پر لگے گولوں اور توپوں کے نشانات آج بھی پنجابی غاصبانہ اقدامات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں۔
فری بلوچستان موومنٹ نے پاکستانی بیانیے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خان آف قلات میر احمد یارخان کی پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کی کوئی قانونی، شرعی، ملکی اور عالمی اصولوں کے پس منظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے جس طرح ایک شخص کو تشدد کرکے اقرار پر بیان حلفی لیا جاتا ہے اور دنیا کی کوئی بھی عدالت جبر سے لیئے گئے اس بیان کو نہیں مانتی تو پھر خان قلات کو بھی پاکستانی فوج نے جبر، دھونس، دھمکی اور طاقت کے زور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کیا تھا لہذا اس کی قانونی وقعت اور حیثیت بلوچ قوم کو کسی صورت بھی قبول نہیں۔
ہم اقوام متحدہ پر زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان پر پاکستانی جارحیت اور اس جبری قبضے کے بعد بلوچوں کی دفاعی جنگ کو کچلنے کے لیے طاقت کے بے دریغ استعمال، بلوچ قوم کی نسل کشی، جبری اغوا، بلوچ سرزمین کے ساحل و وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر بلوچوں کو جان بوجھ کر معاشی بدحالی کا شکار بنانا، بلوچ شناخت کو مٹانے کے لیے ریاستی مشینری کا بے تہاشا استعمال، عالمی جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کو گذشتہ ستر سالوں سے پیش آنے والے حالات پر باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پنجابی پاکستان اس پورے خطے میں ایک کرائے کے قاتل کے طور پر کام کرتا آرہا ہے۔ انگریزوں کا ساتھ دے کر پنجابیوں نے ہندوستان کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا۔ پھر تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے ذریعے تیس لاکھ بنگالیوں کی نسل کشی کی۔ بلوچ تحریک آزادی پر شب خون مارتے ہوئے 27 مارچ 1948 کو بلوچستان پر چڑھائی کی۔ اس قبضے کے خلاف خان آف قلات کے چھوٹے بھائی اور مکران کے اس وقت کے گورنر شہزادہ آغا عبدالکریم بلوچ نے اپنے نظریاتی کارواں کے ہمراہ آزادی کے علم کو بلند کرتے ہوئے وطن کا دفاع کیا تھا ۔
ایف بی ایم ترجمان نے کہا کہ بلوچستان پر جبری قبضہ کے حوالے سے اقوام متحدہ نے اپنے ہی چارٹر کی شقوں کو نافذ کرنے میں کوتاہی برتتے ہوئے سنگین غلطی کی۔ پاکستان سے آزادی کی بلوچ تحریک کو خطے کے ممالک نے نظر انداز کرتے ہوئے در اصل اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری تھی۔ بلوچستان کی تحریک آزادی کو نظر انداز کرنے کے بھیانک نتائج آج سب کے سامنے پاکستان کا ایٹم بم، جہادیوں کی فیکٹریاں، مذہبی جنونیت، کشمیر میں پاکستانی فساد، افغانستان میں سویت یونین کی شکست، امریکہ کی افغانستان میں مشکلات، بنگلہ دیش میں تیس لاکھ بنگالی مسلمانوں کا قتل عام، ایران کا پاکستان سے ممکنہ ایٹم بم حاصل کرنے کی منصوبہ بندی، چائنا، ترکی کی پاکستان سے قربت، ہندوستان کے ساتھ چین کی لداخ میں کشیدگی، پاکستان کی غزوہ ہند پروجیکٹ، چین کا ساؤتھ چائنا سی کے ساتھ جنگی محاذ اور کئی مسائل خطے میں پاکستان کی ولادت کے بعد کے تباہ کن نتائج ہیں۔
بیان کے آخر میں فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ اب بھی وقت ہے دنیا چین کی خطے میں معاشی، فوجی، جغرافیائی اور سیاسی بالادستی کے خلاف بلوچ قوم کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو مذہبی جنونیت اور چینی اجارہ داری سے بچائے۔ بلوچستان اس خطے کا امیر ترین اور پرامن ملک ہوگا جو کہ اس پورے خطے میں امن رواداری، بھائی چارے اور معاشی خوشحالی کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔
بلوچ قوم کے کسی بھی ملک و قوم کے خلاف کوئی مخفی ومنفی عزائم نہیں رہے ، آئندہ بھی ہم اپنے پڑوسیوں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر پاکستان، ایران اور چین کے ناپاک عزائم کے خلاف کام کرنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ بلوچ قوم اس بات کا بخوبی ادراک رکھتی ہے کہ جب بھی بلوچستان کے تاریخی دوست ہمسایہ ممالک میں پاکستان اور ایران بدامنی پھیلاتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر بلوچستان میں بھی یقینی طور پڑتا ہے لہٰذا بلوچستان اس پالیسی پر گامزن ہے کہ پاکستان جیسے مصنوعی ریاست اور ایرانی رجعت پسند ملاؤں سے آزادی ہی اس خطے کی پائیدار امن،معاشی ترقی اور خوشحالی کا نوید ثابت ہوگا۔