دوشنبه, اکتوبر 14, 2024
Homeخبریںافغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم منگل کو قطر روانہ ہوسکتی ہے، طالبان...

افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم منگل کو قطر روانہ ہوسکتی ہے، طالبان سے امن مذاکرات سخت ثابت ہوگی: امراللہ صالح

افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم منگل کو قطر روانہ ہوسکتی ہے، طالبان سے امن مذاکرات سخت ثابت ہوگی: امراللہ صالح

کابل (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے لیے صدر اشرف غنی کی مقرر کردہ ٹیم اور طالبان کے درمیان مذاکرات آیندہ چند روز میں شروع ہورہے ہیں۔افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ ’’تاریخ میں یہ امن مذاکرات سب سے مشکل ثابت ہوں گے۔‘‘

انھوں نے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ بعض حوالوں سے تو یہ مذاکرات عرب امن عمل سے بھی زیادہ پیچیدہ ثابت ہوں گے۔‘‘

انھوں نے کہا’’ بہت زیادہ خون خرابہ ہو چکا ہے اور بہت زیادہ تقسیم پیدا ہوچکی ہے،اس تقسیم درتقسیم پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔‘‘

دریں اثناء برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز نے سوموار کو یہ اطلاع دی ہے کہ بعض لاجسٹیکل مسائل کی وجہ سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطری دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں کچھ تاخیر کردی گئی ہے۔

اس نے ایک ذریعے کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم منگل کوکابل سے قطر روانہ ہوسکتی ہے۔

گذشتہ ماہ افغان حکومت نے طالبان کے انتہائی خطرناک چار سو قیدیوں کو رہا کردیا تھا۔ طالبان کی قیادت نے امن عمل کی بحالی کے لیے صدر اشرف غنی سے ان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
امراللہ صالح نے ان خطرناک قیدیوں کی رہائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس اقدام کے باوجود طالبان اگر اب امن بات چیت سے دستبردار ہوجاتے ہیں تو یہ ’’امن کے چہرے پر ایک تھپڑ‘‘ کے مترادف حرکت ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ’’طالبان اگر امن مذاکرات سے راہ فرار کا کوئی اور بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں تو یہ عالمی برادری کے چہرے پر ایک تھپڑ ہوگا کیونکہ اس نے ہمیں یہی کہا تھا کہ یہ طالبان کا آخری بہانہ ہوگا۔ ان کا اب کوئی نیا بہانہ خود امن کے مُنھ پر بھی ایک تھپڑ ہوگا۔‘‘
امراللہ صالح خود کو سیاسی طور پر طالبان کا مخالف قرار دیتے ہیں۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ طالبان اب مزید رعایتیں لینے کے لیے ’’تشدد‘‘ کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔وہ جو کوئی بھی اقدام کریں گے تو اس سے امن عمل پیچیدگی کا شکار ہوجائے گا۔

افغان نائب صدر نے انٹرویو میں امن مذاکرات کو ایک جانب تو پیچیدہ قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ عمل حکومت اور طالبان کے درمیان ایک جامع سمجھوتے کی جانب پیش رفت کا آغاز ہوگا۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’طالبان کے ساتھ امن کا مطلب ان کے سامنے ہتھیار ڈالنا یا سرنڈر کرنا نہیں،اس کا مطلب زندگی کے دو دھاروں کو قومی چھت کے تلے لانا ہے۔‘‘

Previous article
ایران کی خطے میں تخریبی سرگرمیوں کو روکنے کیلیے برطانیہ اسلحہ کی پابندی میں توسیع پر غور کرے گا: وزیر مملکت دفاع لندن(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق برطانیہ ایران کی خطے میں تخریبی سرگرمیوں کو نکیل ڈالنے کے لیے اسلحہ کی پابندی میں توسیع کے آپشن پر غور کرسکتا ہے: برطانوی وزیر مملکت برائے دفاع۔ یہ بات انہوں نے العربیہ میں ایک انٹرویوں کے دوران کہا انھوں نے اس انٹرویو میں مختلف موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور برطانیہ کی جانب سے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کے ذریعے ہی ایران کی خطے میں تخریبی سرگرمیوں کی راہ روکی جاسکتی ہے۔ برطانیہ نے اس جوہری سمجھوتے میں شامل باقی تین ممالک جرمنی ،فرانس اور روس کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف اسلحہ کی پابندی میں توسیع سے متعلق قرارداد کی حمایت نہیں کی تھی اور اس کے خلاف ووٹ ڈالا تھا لیکن اس کے باوجود مسٹر بن ویلیس کا کہنا ہے کہ ایران پر اسلحہ کی پابندی ایک ایسا حربہ ہے جس پر برطانیہ مستقبل میں دوبارہ غور کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم فی الوقت تو ایرانیوں کو جوہری سمجھوتے کی پاسداری کا پابند بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسلحہ کی پابندی چند ایک ہفتے ہی میں ختم نہیں ہوگی بلکہ اس دوران میں ہم دوسرے فیصلے کرسکتے ہیں۔‘‘ مسٹر ویلیس نے واضح کیا ہے کہ ’’ایران کے خلاف عاید اسلحہ کی تجارت کی پابندی ختم کردی جاتی ہے تو تب بھی برطانیہ اس کے ساتھ کوئی فوجی تعلقات استوار نہیں کرے گا۔نیز اس نے گذشتہ کئی برسوں کے دوران میں ایران کو اس کی دہشت گردی کی حمایت اور تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے اسلحہ فروخت نہیں کیا ہے۔ انھوں نے کہا:’’ ایران کا خطے میں کردار یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے،وہ خطے بھر میں تخریبی سرگرمیوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی حمایت کررہا ہے۔ان حالات میں برطانیہ کو ایران کے ساتھ فوجی تعاون یا اسلحہ کی فروخت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نیزوہ آبنائے ہُرمز سے گذرنے والے ہمارے تجارتی بحری جہازوں کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی عاید اسلحہ کی پابندی 18 اکتوبر 2020ء کو ختم ہورہی ہے۔امریکا اس وقت اس پابندی میں توسیع کے لیے سفارتی کوششیں کررہا ہے اور وہ برطانیہ ایسے اپنے اتحادی ممالک پر زوردے رہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اس کی تحریک کی حمایت کریں۔
Next article
یہ بھی پڑھیں

فیچرز