پنجشنبه, اکتوبر 3, 2024
Homeآرٹیکلزپاکستان میں مقدس گائے یا فوج پر تنقید کے خلاف مسودہ قانون...

پاکستان میں مقدس گائے یا فوج پر تنقید کے خلاف مسودہ قانون سازی:تحریر نعیم خان بلوچ

پاکستان میں مقدس گائے یا فوج پر تنقید کے خلاف مسودہ قانون سازی: تحریر نعیم خان بلوچ

کہاجاتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندووں کے مابین جھڑپے مقدس گائے کے اوپر ہی ہوتے رہے ہیں۔ وہاں ایک گروہ کے لیے یہ روحانی حیثیت اور دوسرے گروہ کیلئے پیٹ کی ضرورت تھی ۔

صدیاں گزرنے کے باوجود اس مقدس گائے کا ماجرہ تا حال حل ہو نہ پایا ہیں۔ اور آج تک یہ مقدس گائے کا مسئلہ پنڈورا باکس کی طرح حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ہے اور ہمیشہ ہندوستان میں یہ سیاسی،مزہبی،سیکولر گروپس کے مابین کشمکش کاسبب بنتا چلا آ رہا ہے ۔

آج کل پاکستان میں بھی ایسے ہی نوعیت کی صورت حال کی کشمکش جاری ہے۔ پاکستانی مقدس گائے یعنی پاکستانی فوج کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔جو کہ ایک فوج نواز بل کے پیش ہونے کے بعد سراٹھایا ہےاور اس بل میں مسودہ قانون کے تحت مقدس گائے کا تمسخر اڑانے، بے عزتی کرنے یا بدنام کرنے پر سخت سزائیں اور جرمانے تجویز کی گئیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور سیاست دانوں نے حکومت کے فوج نواز بل کے مسودہٴ قانون کی مخالفت کی ہے۔

یاد رہے کہ یہ بل سولہ ستمبر کو پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان کی طرف سے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، جس کے تحت اگر کوئی شخص مقدس گائے کا تمسخر اڑائے، بے عزتی کرے یا بدنام کرے تو اس کو دوسال قید کی سزا بھگتنی پڑے گی اور پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں یہ مقدس گائے ہمیشہ اپنے سیاسی کردار، قانونی اصولوں سے تجاوزات اور سول اداروں میں مداخلت، انسانی حقوقوں کی شدید خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہمیشہ انسانی حقوق کے کارکنوں،صحافیوں اور سیاستدانوں کے تنقيد پر رہا ہے، جیسے کہ حالیہ ہفتوں میں فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کے کاروبار بھی ہدف تنقید رہے، جس کا سب سے زیادہ شکار سابق لیفٹیننٹ جنرل اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ ہوئے، جن پر سول سوسائٹی اور سیاست دانوں کی طرف سے صحافی احمد نورانی کے انکشافات کے بعد شدید تنقید ہوئی۔

یاد رہے کہ آج تک پاکستان میں اس مقدس گائے پر پاکستانی میڈیا تنقيد نہیں کر تا وہاں سخت سینسرشپ ہے،”تاہم سوشل میڈیا پر کچھ لوگ مقدس گائے کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں اور اب وہاں بھی سینسر شپ لگ جانے کا امکان ہے، پاکستان میں پہلے ہی فیس بک قابل اعتراض مواد کو ہٹا چکی ہے اور اگر یہ قانون پاس ہوجاتا ہے تو سوشل میڈیا پر مزید سختیاں شروع ہوں گی۔

بہرحال پاکستان میں اسی بل کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ آج تک اس مقدس گائے پر تنقید کرنے والے صحافی ، سیاستدان اور دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے یا زندانوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور یا تو ملک بدری جلاوطنی کی زندگی جی رہے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز