واشنگٹن (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق لبنانی ملیشیا حزب اللہ اور اس کی پشت پناہ کرنے والے ایران کی نظریں آج ہونے والے امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں۔ اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کا مطلب یہ ہو گا کہ حزب اللہ اور ایران پر دباؤ کا سلسلہ جاری رہے گا تا کہ انہیں ٹرمپ کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اسی بنا پر حزب اللہ نے داخلی سطح پر اپنے بعض استحقاقات کو امریکی انتخابات کے نتائج تک معلق کر دیا ہے۔ ان میں نئی لبنانی حکومت کی تشکیل کا استحقاق بھی شامل ہے۔
یہ پیش رفت اس گمان پر سامنے آئی ہے کہ ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن انتخابات میں جیت کر وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے باہر جانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس طرح حزب اللہ پر دباؤ کا سلسلہ رک جائے گا اور وہ خود پر لٹکتی پابندیوں کی تلوار سے خود کو بچا سکے گی۔
البتہ صدارتی انتخابات کے نتائج دوسری بار بھی ٹرمپ کے حق میں ہوں یا جو بائیڈن کے کرسی صدارت تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں امریکی خارجہ پالیسی کی سطح پر بالخصوص ایران اور اس کے عسکری دھڑوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ زیادہ تر مبصرین اور تجزہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے۔
واشنگٹن میں لبنان کے سابق سیفر ریاض طبّارہ کے مطابق “جو بائڈن کی جیت کی صورت میں ان کا دور بڑی حد تک سابق صدر باراک اوباما کے زمانے سے ملتا جلتا ہو گا۔ تاہم ریپبلکن اور ڈیموکریٹک ارکان کانگرس اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ان میں تین بنیادی نکات شامل ہیں، پہلا نکتہ یہ کہ معاہدے کو کسی متعین عرصے کے ساتھ مربوط نہ کیا جائے تا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔ دوسرا نکتہ ایرانی میزائل پروگرام اور تیسرا نکتہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعامل میں ایران کے کردار کو کم کرنا ہے۔
سابق لبنانی سفیر کے مطابق حزب اللہ کی جانب سے اپنے مستقبل کو امریکی انتخابی نتائج کے ساتھ داؤ پر لگانا یہ ہارا ہوا جُوا ہے۔ اس لیے کہ لبنان کے حوالے سے امریکی پالیسی وہ ہی رہے گی۔
ادھر واشنگٹن میں “لبنانی فورسز” سیاسی جماعت کے خارجہ تعلقات کے بیورو چیف جوزف جبیلی کے مطابق “جو بائڈن کی جیت کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ ایران اور حزب اللہ پر پابندیوں کا سلسلہ رک جائے گا۔ اس لیے کہ وہ بعد ازاں مذاکرات کے آغاز پر ان کو بنیادی آلات کے طور پر استعمال کریں گے۔
دوسری جانب ٹرمپ جو خود مذاکرات کا دوبارہ آغاز چاہتے ہیں، وہ بھی اسی دوران پابندیوں کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے یہاں تک کہ وہ 12 شرائط پوری ہو جائیں جو امریکا نے تعلقات معمول پر لانے کے واسطے ایرانی حکومت کے سامنے رکھی تھیں۔
امریکا کی 12 شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ جوہری اسلحہ کی تیاری روکنا۔
2۔ عالمی معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینا۔
3۔ جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت والے میزائلوں کی تیاری بند کرنا۔
4۔ جوہری ہتھیار تیاری کی سابقہ کوششوں کو سامنے لانا۔
5۔ دہشت گرد تنظیموں بالخصوص حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد کی مدد بند کرنا۔
6۔ یمن میں شیعہ مذہب کے حوثی باغیوں کی مدد ترک کرنا۔
7۔ شام میں موجود اپنی فوج واپس بلانا۔
8۔ افغانستان میں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی مدد بند کرنا۔
9۔ القاعدہ کے رہنماؤں کی میزبانی ختم کرنا۔
10۔ پڑوسی ملکوں کے لیے خطرہ نہ بننے کی ضمانت دینا۔
11۔ ایران میں موجود تمام امریکیوں کو رہا کرنا۔
12- سائبر حملے بند کرنا۔
جبیلی کے مطابق خطے کے لیے ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے اہداف ایک ہی ہیں مگر ان کو پورا کرنے کا طریقہ کار مختلف ہے۔ حزب اللہ کو بھی یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جو بھی امریکی انتظامیہ ہو گی، حزب اللہ اس کی نظر میں دہشت گرد تنظیم کے طور پر ہی باقی رہے گی۔ تنظیم کے خلاف پابندیوں کی پالیسی کا آغاز سابق صدر باراک اوباما کے دور میں ہوا تھا اور جو بائڈن کی جیت کی صورت میں بھی یہ پالیسی جاری رہے گی۔
دوسری جانب لبنان میں سعد حریری کی سربراہی میں نئی حکومت کی تشکیل کو رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے بنیادی اختلاف یہ ہے کہ سعد حریری 18 وزراء پر مشتمل کابینہ چاہتے ہیں جب کہ دوسرا فریق وسیع تر کابینہ پر اصرار کر رہا ہے۔
سعد حریری کی جماعت “فیوچر پارٹی” کے سیاسی بیورو کے رکن مصطفی علوش کے مطابق حکومت کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ موقوف ہے اور فضا منفی ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ سعد حریری کی طرف سے حکومت کی تشکیل سے معذرت کا کوئی آپشن اس وقت زیر غور نہیں ہے تاہم حریری اس بات کو ہر گز قبول نہیں کریں گے کہ ان پر وہ چیز مسلط کی جائے جس کو وہ پہلے مسترد کر چکے ہیں۔