کوسووو (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق کوسووو کے سابق صدر ہاشم تھاچی کو جنگی جرائم کے تحت جمعرات کو گرفتار کرکے نیدرلینڈ کے دی ہیگ میں واقع کوسووو ٹريبيونل کے حراستی مرکز میں منتقل کردیا گیا۔
زمانہ جنگ میں ہیرو کے طور پر شہرت حاصل کرکے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے ہاشم تھاچی نے اس امر کی تصدیق ہوجانے کے بعد کہ انہیں کوسووو ٹريبيونل کی طرف سے جنگی جرائم کا قصوروار قرار دے دیا گیا، ملکی صدر کے عہدے سے فوراً مستعفی ہوگئے۔
تھاچی اور کوسووو لبریشن آرمی (کے ایل اے) کے تین سابق رہنماوں پر غیر قانونی طور پر حراستی مراکز چلانے کے الزامات ہیں۔ ان حراستی مراکز میں مخالفین کو غیر انسانی حالات میں رکھا گیا، انہیں اذیتیں دی گئیں اور بعض اوقات انہیں قتل بھی کردیا گیا۔
تھاچی ان الزامات کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔ کوسووو کے دارالحکومت پرسٹینا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ‘ریاست کی سالمیت کو بچانے کے لیے‘ ان کا استعفی دینا ضروری ہوگیا ہے۔
تھاچی سہ پہر کو پرسٹینا کے فوجی ہوائی اڈے پر پہنچے اور وہاں سے ہیگ روانہ ہوگئے جہاں انہیں کوسووو اسپیشلسٹ چیمبرز نے حراست میں لے لیا۔
اس تازہ ترین پیش رفت کے نتیجے میں کوسووو میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ 2008 میں آزادی حاصل کرنے والے کوسووو میں جمہوریت ابھی نئی نئی ہے۔ 52 سالہ سابق گوریلا لیڈر تھاچی 2008 میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے اور 2016 میں صدر منتخب ہوئے۔
استغاثہ نے اس برس جولائی میں تھاچی کو 1998-99 کی جنگ کے دوران، جب وہ کے ایل اے کے کمانڈر تھے، تقریباً 100 شہریوں کے قتل کا قصوروار قرار دیا تھا۔ قتل کی ان وارداتوں اور جنگی مظالم کے متاثرین میں کوسووو کے سب سے بڑے اقلیتی گروپ یعنی کوسووو کے البانوی نژاد باشندوں سمیت سربیا کے شہری اور روما نسلی اقلیت کے ارکان شامل تھے۔
امریکی حمایت یافتہ تھاچی نے ایک قومی ہیرو کے طور پر اپنے سیاسی کیریر کا آغاز کیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ ستمبر میں ان کے تعلقات اس وقت مزید مستحکم ہوگئے جب کوسووو اور سربیا نے وائٹ ہاوس میں اقتصادی تعلقات کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
یورپی یونین نے تھاچی کے کوسووو اسپیشلسٹ چیمبرز کے ساتھ تعاون کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔ 2015 میں اس ٹرائیبیونل کا قیام جنگ سے متعلق کیسز کو نمٹانے کے لیے عمل میں آیا تھا۔
کوسووو میں بیشتر افراد جنگی جرائم کے اس عدالت کے خلاف ہیں اور وہ کے ایل اے کے کمانڈروں کو ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔
پرسٹینا میں فیض اللہ ابراہیمی نامی ماہر اقتصادیات نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آزادی دلانے والوں کے خلاف مقدمہ چلانا بہت بڑی نا انصافی ہے۔”
دوسری طرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تھاچی کی گرفتاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان ہزاروں جنگی متاثرین کے لیے امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے جو گزشتہ دو عشرے سے زیادہ عرصے سے بھیانک جرائم کے متعلق سچائی سے آگاہ ہونے کے منتظر ہیں۔
کوسوو سے متعلق سربیائی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین اور قانون ساز میلووان ڈریکن کا کہنا تھا کہ تھاچی کی گرفتاری سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کے ایل اے جنگی جرائم میں ملوث تھی اور اس کے لیے قصوروار افراد کو سزا ملنی ہی چاہیے۔
سن 1988 سے 1999ء تک جاری رہنے والی سربیا اور کوسووو کی جنگ میں دس ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے جبکہ 1,641 افراد کا آج بھی کچھ پتا نہیں ہے۔ یہ جنگ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی سربیا کے خلاف 78 روزہ فضائی جنگی کارروائیوں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔