ھمگام آرٹیکل
تحریر: سنگت بالو۔
ہاے تربت تیری گرم ہوا، وہ تپتی دھوپ وہ کجھور کے باغات اور مولدی ریک۔
جنوری، شاید یہی ایک مہینہ ہے جہاں تربت میں سردی اپنے آپ کو منوانے آتی ہے کہ ہاں میرا بھی یہاں بسیرا ہے، میں بھی یہاں رہتا ہوں۔ تقریبا جنوری کا ہی ایک مہینہ ہے جہاں تربت کے باشندوں کو پسینہ نہیں آتا۔
تو یہی جنوری کا مہینہ تھا صبح اٹھ کر ناشتہ پر بیٹھ گیا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی، دیکھا “دوست” کا فون ہے، فون دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ دوست ضرور تربت آیا ہوگا۔
فون اٹھایا روایتی سلام دعا کے بعد دوست نے سوال کیا کہ کہاں ہو؟ گھر میں ہوں، میں نے جواب دیا۔
چلو جلدی سے آجاو النعیم ریسٹورنٹ میں بیٹھا تمہارا منتظر ہوں۔
یہ سنتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا اور فورا دوست سے ملنا نکل پڑا۔
النعیم ریسٹورنٹ پی آئی اے ہسپتال کے سامنے مین روڑ پر واقع ہے، جہاں سیٹھ شاد ہمیشہ اپنی بھاری آواز میں ایک مسکراتے چہرے کے ساتھ آنکھوں کے سامنے اخبار چھپکائے بیٹا رہتا، الم خان خارانی عرف ہستی شاید ہی اس کے دوست اور دوسرے ہوٹل میں آنے والے افراد اس کا اصلی نام جانتے ہوں۔
پہنچتے ہی دیکھا “دوست” پہلے سے بیٹھا ہوا تھا مجھے دیکھ کر مسکرایا اور خوشی سے آواز دی “ابا چلاڑوو”
ایک دوسرے کے گلے ملے آواز لگائی سیٹھ ایک دودھ پتی، سیٹھ شاد نے مسکراتے ہوے ” بلے واجہ” کہہ کر بھاری آواز سے چلایا ” ہستی ٹیبل پر دو چائے لانا”۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہستی اپنے ٹیڑھے میڑھے قدموں کے ساتھ آیا اور زور سے چائے ٹیبل پر رکھ کر قریب کے ٹیبل پر بیٹھ کر باہر کا نظارہ کرنے لگا۔
کچھ دیر بعد ناکو سبزل سامگی بھی گنگناتے ہوے وہاں پر آں پہنچے اور آواز لگائی “ہستی تو پا روڑء- چارگا لائک نبے، برو پمن چائے بیار” اور ہستی مسکراتے ہوے وہاں سے نکل پڑا۔
قریب ہی واقع ڈیلٹا اسکول میں چھٹی ہونے اور ساتھ میں پی آئی اے، بلوچ و کیچ ہسپتال سے گاڑیوں کی لمبی قطار نے روڑ جام کردیا، چاروں طرف صرف بولان و سیاہ شیشے والے گاڑیوں کے ہارن سنائی دے رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ اب تو پورے دن تک یہ ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ قریب سے ایک سیٹھی کی آواز سنائی دی دیکھا ایک بوڑھا ٹریفک حوالدار ٹریفک کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رها تھا مگر بولان والے تھے کہ پولیس والے کو گھاس بھی نہیں ڈھال رہے تھے۔
پھر اچانک ایک اور آواز آئی “اوئے نکلو یہاں سے” آواز کے ساتھ ہی میں نے ایک عجیب سا ماحول محسوس کیا، تمام گاڑی والوں کے چہرے اترے ہوے تھے، سیٹھ شاد سمیت ہستی ناکو سبزل سامگی و دوسرے لوگ ایک خوف بھری نگاہ سے باہر دیکھ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے رش سے روڑ صاف ہونے لگا اور تمام گاڑیاں کنارہ ہونے لگے۔
دیکھا تو ایک لمبا، بڑھے بال و دھاڑی والا شخص ہاتھ میں بندوق لیے سب کو لاتوں اور گھونسوں سے نواز رہا تھا، جو گاڑی بھی سامنے آرہی تھی لاٹھیوں سے اس پر اپنا ٹپہ دے مارتا۔
میں نے “دوست“ کو دیکھا تو وہ بولا لوگ تو خدا سے بھی اس قدر خوف زدہ نہیں ہوتے جس طرح اس شخص سے ہورہے ہیں، میں نے جواب میں کہا “شاید یہ جناب خدا ہیں اور ہم نے خدا کو زمین پر چلتے دیکھا ہے”۔