تحریر: صوبدار بلوچ
ان گم راہ بلوچوں کو، بلوچستان کی جغرافیہ، تاریخ، تمدن، رہن سہن، اور تحریک بابت ناآشنا، نابلد بین الاقوامی طاقتوں، اداروں، حکومتوں کو کون سمجھائے گا کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ بلوچستان ایک مفتوحہ، مقبوضہ اور جنگ زدہ وطن ہے، انھیں ہمیں ہی سمجھانا پڑیگا کہ ہم بلوچ قوم پنجابی زیر کنٹرول انتخابات کی دھماچوکڑی میں شرکت کرکے ایک اسمبلی، ناظم کی سیٹ کے لئے ہلکان ہونے کی بجائے، اپنی قومی وت واجہی، حق حاکمیت، اور وطن پر اپنی حق ملکیت کا حقدار ہیں۔ ہمیں ملکی سطح پر اپنی اس قومی بیانیہ کو ہر زبان زد عام پر لانا چاہیے کہ بلوچستان کی آزادی کے کاروان کا دست و بازو بنیں تو ہمیں کسی پنجابی، کسی گجر کے دربار میں حاضری دینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہیگی۔
یاد رہے اس وقت بلوچستان کا پاکستان کے نام نہاد قومی اسمبلی میں 17 نشست ہیں، اسی اسمبلی میں جیتنے والے امیدواروں کو فوج اور آئی ایس آئی کے دہلیز میں رات کی تاریکی میں جاکر حلف لینا ہوتا ہے کہ وہ منتخب ہوکر فوج، اور پنجابی اداروں کے خلاف کبھی بھی نہیں بولیں گے اس کے علاوہ یہ سترہ لوگ اسمبلی میں جاکر بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کے لئے بھی فوج کا ہاتھ بٹھائیں گے۔ تب جاکر ان کو فتح یاب قرار دیا جائے گا۔
صوبائی اسمبلی میں کل 65 نشستیں ہیں جن میں زیادہ تر فوج نواز مذہبی جماعتوں کے امیدوار کامیاب قرار دئے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج و اسلام آباد کے خاص چہیتے ہیں باقی نشتوں پر قبضہ کرتے ہیں، یہاں بھی بلوچستان کے لئے بولنے والوں کی نمائندگی صفر ہے۔
بلوچ عوام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کی پنجابی زیر دست اسمبلیاں ہماری قومی آزادی کا نعم البدل ہر گز نہیں ہوسکتا لیکن عالمی برادری اور پنجاب کے عوام کو بتانے کےلئے کہ بلوچ اسمبلی میں جاکر جیت بھی سکتے ہیں اور انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے ، ماضی میں تقریبا تمام بلوچ لیڈروں اور ان کے صاحبزادوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا، انہوں نے جمہوری انداز کو بھی استعمال کیا لیکن پنجابی فوج اور ان کے قابض اداروں نے اسمبلی میں حقیقی بلوچ آوازوں کو طاقت کے زور پر دبایا جن کی واضح مثالیں گورنر رہنے والے شہید نواب بگٹی، صوبائی اسمبلی کا رکن شہید بالاچ مری تھے جنہوں نے بیلٹ باکس کا استعمال کرکے دنیا کو بتایا تھا کہ بلوچ قوم تحریک سے جڑے عوام نے شوق سے بندوق کا انتخاب نہیں کیا بلکہ پنجابی مقتدرہ کی ہٹ دھرمی اور جمہوریت سے نا آشنا طاقت کے نشے میں دھت جرنیلوں کو سبق سکھانے اور دنیا کو جگانے کےلئے بلوچوں نے اپنی دفاع میں، پہاڑوں کا رخ کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان گذشتہ تہتر(73) سالوں سے بلوچ عوام کے خلاف قصدا طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔
بلوچ عوام عالمی برادری کو یہ بھی گوش گزار کرانا چاہتی ہے کہ وہ پاکستان کی بلوچستان پر جبری قبضے کے خلاف آنکھیں موند لینے کی بجائے ، بلوچستان اور پاکستان کے مابین تاریخٰی تضادات کا مطالعہ کرے، اور جب سے بلوچستان پر پنجابی فوج نے بزور شمشیر قبضہ کیا تھا اس دن سے اب تک بین الاقوامی برادری نے بلوچ جو اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات استوار کئے، خطے کے ممالک خاص کر ہمارے ہمسائے ممالک کو چاہیے کہ وہ فی الفور پاکستان کے ساتھ فوجی، معاشی تعلقات کو منقطع کرے کیونکہ پاکستان کے ساتھ اسلحہ کی خرید و فروخت بلوچستان کے حالات کو مزید بگاڑ نے کا موجب بن رہے ہیں، پاکستان کو جنگی جہاز، ٹینک، توپ خانے، اور دیگر مراعات کی ترسیل سے بلوچستان اور پاکستان کے مابین پہلے سے بگڑی طاقت کا توازن مزید گھمبیر بنارہا ہے۔
بلوچستان جو ایک تاریخی ملک ہے، اپنی سرحدات، اپنی ہزاروں سالہ قومی وجود رکھتی ہے، کی دفاع کرنے والے بلوچ مزاحمت کاروں جنہیں بلوچ اپنے مستقبل کے قومی فوج سمجھتے ہیں کے پاس معمولی نوعیت کے اسلحہ موجود ہے جس سے ایک ایٹمی ملک اور جدید ترین میزائلوں اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے لیس پاکستان جیسے مذہبی، رجعت پسند، انتہا پسند پنجابی فوج کا تن تنہا ، قلیل وسائل سے مقابلہ کررہی ہے۔
یہ بھی اظہر المنشمس ہے کہ بلوچوں نے کبھی بھی خطے اور عالمی طاقتوں کے خلاف عزائم نہیں رکھے، ہم نے ہر وقت اپنی قومی آزادی، اپنی سرزمین پر اپنی حق ملکیت کی بات کی اور ہم نے پاکستان و ایران کی خطے میں درپردہ پراکسی جنگوں کا نہ صرف حصہ نہ بننے بلکہ ہماری مدبر اور بااصول قیادت نے تہران اور اسلام آباد کی جاری پراکسی جنگوں کے کھل کر مخالفت کی۔ خطے کے طاقتور ترین ممالک کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی حمایت کرتے، کیونکہ تاریخ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کو پالنے، پوسنے ، شہہ دینے سے خطے میں مذہبی شدت پسندی مزید بڑھی ہے، ایران اور پاکستان کی تربیت یافتہ جنونیوں نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، بیلجیم، فرانس، لندن، نیویارک، ممبی، کابل، اٹلی، روم، اور دنیا کے ہر کونے میں ہونے والی دہشت گردی کی کڑیاں پاکستان سے ملتی ہیں، ہر دہشت گرد نے اپنی زندگی میں ایک بار پاکستان کا ضرور دورہ کیا ہوتا ہے، اور ان تمام کے تانے بانے پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور راولپنڈی کے جرنیلوں سے ملتی ہے۔
بلوچ گذشتہ سات دہائیوں سے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی نامنہاد اسملیاں ہماری آزادی کا نعم البدل نہیں ہر گز نہیں ہوسکتی ، کیونکہ دنیا کے کسی بھی اسمبلی، قانون سازی کا ایک ادارہ ہوتا ہے، جس میں تمام قومیتوں کو برابری کی نمائندگی حاصل ہوتی ہے، ہر قوم اور خطے کے لوگ کسی بھی جارحیت ، نابرابری اور نا انصافی کو رائے شماری سے مسترد کرتے ہیں اور اسمبلی میں کسی بھی قرار داد کو پاس کرسکتے ہیں، لیکن بلوچستان کو پاکستان کے اسمبلیوں میں جب کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے تو پھر قانونی اور رائے شماری سے قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایک ایک قرارداد پاس کرانا تو درکنار بلوچستان کی آزادی کو شامل بحث کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
بلوچستان کے بارے میں ناآشنا و نا بلد دنیا کو پاکستان کی دہشت گردانہ عزائم کی تاریخ کو ٹٹول کر دیکھنا چاہیے کہ ان کی فوج نے بھاری اکثریت سے انتخابات جیتنے والے بنگالی رہنما شیخ مجیب الرحمن کو اس لئے دیوار سے لگایا تھا کیونکہ وہ انتخابات میں پنجاب سے زیادہ سیٹیں جیت کر آئے تھے۔ یہاں یہ بات عالمی برادری کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہونی چاہیے کہ جس پاکستانی فوج نے اکثریت والے بنگالی قوم کی بیلٹ باکس کے ذریعے فتح کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ان کے تیس لاکھ لوگوں کی نسل کشی کی یہی فوج 342 پر مشتمل اسمبلی میں صرف 17 نشتوں والی بلوچستان کے امیدواروں کو کیا حیثیت دیگی؟ بلوچ اور پشتون قیادت نے 1970 کی دہائی میں خیبر پشتونخواہ اور بلوچستان میں نیپ کی پلیٹ فارم سے انتخابات جیتے تھے لیکن ان کی حکومت کو بھی رات کی تاریکی میں ختم کرکے پنجاب نے ثابت کردیا تھا کہ بلوچوں اور بنگالیوں کے لئے پاکستان میں اقتدار شجر ممنوعہ ہے۔ یاد رہے ان سترہ نشتوں میں بھی ایک آدھ ممبر اسمبلی شائد ہی بلوچستان کی آزادی کی کھل کر حمایت کر پائے کیونکہ اسمبلی میں جاکر بلوچستان کی آزادی اور حقیقی مسائل پر بات کرنے والے بلوچوں کو فوج نے ہمیشہ ٹارگٹ کیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اب بلوچوں سے یہ کہنا نہیں چاہیے کہ ہم بلوچ کیوں بیلٹ باکس کا استعمال نہیں کرتے، اب عالمی برادری کو یہ دیکھنا ہوگا کہ تین سوبیالیس میں سترہ سیٹوں کی کیا حیثیت ؟ سترہ سیٹ کا کوٹہ قومی اسمبلی میںٰ اپنے رہنماوں کے لئے ایک دعائیہ قرارداد تک پاس نہیں کرواسکتے، بلوچستان کی حقوق، بلوچستان سے پاکستانی فوج کے انخلا پر قرار داد لانا ناممکنات میں سے ہیں۔ لہذا بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان سے برملا کہے کہ وہ اپنی غاصب فوج کی بلوچستان سے انخلا کرے تاکہ افغانستان اور پورے خطے میں پائیدار امن کے لئے بلوچستان کی حقیقی لیڈر شپ، بلوچستان کے محب وطن لوگوں پر مشتمل قومی فوج کو بارڈر کی ذمہ داریاں سونپی جائیں جو پشتونوں کے ساتھ مل کر ڈیورنڈ لائن پر اپنی تعیناتی کو ممکن بنائے، اور افغانستان میں پاکستان اور ایران کی مداخلت کو ختم کرسکیں۔ افغانستان کو پاکستان اور ایران کی پراکسی جنگ کا سامنا ہے، اور بلوچستان کی آزادی زخمی افغانستان کاواحد علاج ہے۔ جس طرح فلسطین، کردستان اور دیگرممالک کے سفارتخانے اور ملکی ڈھانچہ کو عالمی برادری نے تسلیم کیا ہوا ہے بالکل اسی طرح بلوچستان کو بھی ایک الگ شناخت دے کر تسلیم کیا جائے، اور پوری دنیا میں بلوچستان کی سفارتخانے کھولے جائیں تاکہ بلوچستان سبہی ممالک کے ساتھ براہ راست اپنے تعلقات استوار کرکے پاکستان و ایران کی اثر و رسوخ سے نکل جائے۔ سی پیک، اور دیگر استحصالی منصوبوں کو زائل کرنےکے لئے بلوچستان کے ساتھ معاملات کو براہ راست ڈیل کرنے کا درست وقت آن پہنچا ہے کیونکہ جب تک بلوچستان مقبوضہ رہیگا تب تک ہمارے دوست ممالک پاکستان و ایران کی مذہبی، شدت پسندی کا شکار ہوتے رہیں گے،اور دنیا کیلئے اس خطے میں دیرپا امن و ترقی ایک خواہش ہی رہیگی۔