واشنگٹن (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی حکومت نے عراق میں تعینات اپنا سفارتی عملہ احتیاطی تدابیر کے تحت کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے تصدیق کی کہ حکومت نے آنے والے ہفتوں میں بغداد میں اپنے سفارتخانے کے کچھ عملے کو واپس بلا رہی ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ عراق سے امریکی سفارت عملے کی جزوی واپسی کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تیس جنوری کو ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا ایک سال پورا ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ امریکی قومی سلامتی کونسل کی پالیسی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا جو اس ہفتے کے شروع میں منعقد کیا گیا تھا۔ ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ آیا امریکا بغداد سے اپنا کتنا سفارتی عملہ واپس بلا رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے وہ پوری دنیا میں اپنے سفارتی عملے میں ردو بدل کررہا ہے تاہم عراق سے فوجیوں کی واپسی پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا ہے۔
جبکہ عہدیدار نے بتایا کہ امریکی سفیر میتھیو ٹوئلر ابھی تک عراق میں موجود ہیں اور سفارت خانہ ابھی بھی کام کر رہا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع کردہ ایک ویڈیو کلپ میں ٹویلر نے اعلان کیا کہ یہ کمی عارضی ہے اور اس سے ملازمین کی تعداد یا ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عراق میں ایرانی حامی ملیشیا نے جان بوجھ کر متعدد شہروں اور علاقوں میں اپنے عناصر کو متحرک کر رہی ہیں۔ امریکا کی طرف سےعراق سے اپنے سفارتی عملے میں کمی کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب حال ہی میں ایران کے چوٹی کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایران نے اس کارروائی میں امریکا اور اسرائیل کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
ایک سینیر سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ایران نواز گروہ نینویٰ کے میدانی علاقوں اور سنجار خطے میں اپنے جنگجوئوں کو متحرک کرنے کے ساتھ اپنی صفوں میں رضاکاروں کی تعداد میں اضافہ کر رہے اور خطے میں مزید فوجی سازوسامان پہنچایا جا رہا ہے۔