کل بلوچ رہنماءاور آزادی کی جنگ میں برسرپیکار بلوچ مسلح تنظیم بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سایئٹ ٹویئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچ قیادت کو اپنی انا اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے سے بات چیت کا آغاز کردینا چاہیئے۔ بلوچ قوم اس وقت انتہائی نازک مرحلے سے گزررہی ہے اور اگر ہم اس میں ناکام ہوئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی”۔
یہ بیان میری نظر میں انتہائی اہمیت کا حامل بیان ہے اور یقین جانیں میں شائد جذباتی آدمی ہوں سو کریم نوشیروانی کے “یارُک” کی طرح بلا وجہ خوش بھی ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ زرمبش نیوز کی جانب سے اس ٹویئٹ کو تشریح سمیت نشر کیا گیا۔جب اس بیان کی حقیقت میری سمجھ میں آئی جس کے بعد میرے جذبات کے غُبارے سے ہوا نکل گئی۔ دراصل مجھے نہ ٹویئٹ کے مقصد کا پتہ چلا اور نہ ہی زرمبیش کی تشریح سمجھ میں آئی کہ اس سب کے پیچھے حقائق کیا ہیں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا اس نوعیت کا کوئی پہلا بیان نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ڈاکٹر صاحب نے اسی موضوع پر لب کشائی کی ہے اور اتحاد و اتفاق کی اہمیت و افادیت پر زور دیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی اقوال زریں سے نہ کبھی کسی نے انکار کیا ہے اور نہ ہی کوئی عقل سلیم رکھنے والا شخص متحدہ قومی طاقت سے انکار کرسکتا ہے مگر یہ ضرور سوچ سکتا ہے کہ
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہےچلیں زرمبیش کی تشریح کو ایک طرف رکھ کر میری دو لمحے والی “یارُک” کی خوشی کو آگے لیکر چلتے ہیں اور اس اپیل کو ایک سنجیدہ کوشش سے تشبیح دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی کاوشوں کو باریک بینی سے جانچھنے کی ایک کوشش کی جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچ قیادت کے درمیان اختلافات ہیں کیا جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے جس کی وجہ سے بلوچ تحریک آزادی ایک بھنور میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آج تک بلوچ سیاسی محفلوں میں کبھی کسی کے سامنے نہ آسکا اور نہ ہی کبھی مستقبل قریب میں اس سوال کے جواب ہونے کا کوئی اندیشہ ہے۔ اب اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اس کا جواب کیوں آج تک نہ سامنے آیا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے جواب ہونے کے حوالے سے میں مطمئن ہوں تو میں کم از کم جواب دینے سے قاصر ہوں مگر یہ التجا ضرور کروں گا کہ بلوچ سیاسی کارکن اس سوال کا جواب تلاش کریں۔
اگر قیادت کی بات کی جائے تو ڈاکٹر صاحب خود ان میں سے ایک ہیں اور ایک تنظیم کے سربراہ ہیں۔ بلوچ معاشرے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور معاشرے کی ایک اچھی خاصی تعداد کو ان سے الفت ہے اور ان کو فالو کرتی ہے۔ اب ان کی شخصیت اور ان کے بیان کو اکھٹا کرکے دیکھا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کے پاس ایسا کیا فارمولا ہے جس سے وہ اس مصیبت کی ماری قوم کی بکھری طاقت کو اکھٹا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی انسانی تاریخ میں ایک ایسی کوئی مثال سامنے لاسکتا ہے جس سے بیان بازی یا ٹوئیٹر ٹویئٹر کھیلنے سے قوموں کے درمیان اتحاد ہوا ہے؟
شائد میں غلط ہوسکتا ہوں اور دوست میری تصحیح کرسکتے ہیں لیکن یہ سوال تو حق بجانب ہے کہ بگڑی چیزوں کو سنوارنے کےلئے کم از کم ایک روڈ میپ اور فارمولا تو ہونا ہی چاہیئے۔ بجائے ٹوئیٹر میں بیان جاری کرنے کے ڈاکٹر صاحب اپنی طرف سے ایک نمائیندہ کمیٹی کا اعلان کرتے کہ یہ کمیٹی میری طرف سے اختیار دار ہے کہ وہ بلوچ قیادت سے بات چیت کا آغاز کرے جس طرح سنگت حیر بیار نے کچھ سال پہلے کیا تھا جہاں انہوں نے ایک کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ دیگر جماعتوں سے بات چیت کرکے ایک فارمولا طے کریں جس کو لیکراس پسی ہوئی قوم کی بچی کُچی مگر بکھری طاقت کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کمیٹی کو کس کی طرف سے کیا ریسپانس ملا قطع نظر اس کے مگر ڈاکٹر صاحب اگر واقعی میں سنجیدہ ہیں اور اپنے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں رکھتے تو کم از کم وہ کوئی ایسا فارمولا سامنے لا سکتے تھے۔ یا پھر ہم بحیثیت بلوچ سیاسی کارکن ان سے یہ توقع تو رکھ ہی سکتے ہیں کہ وہ قوم کے سامنے ان حقائق کے ساتھ آئیں کہ آج تک انہوں نے کس سے کس موقعے پر رابطہ کیا ہے اور دوسری جانب سے کیا ریسپانس ملا ہے ہاں البت دوسرے فریقین کے پاس بہت سے شواہد ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب سے بہت سے مواقعوں پر رابطہ کیا جا چُکا ہے مگر رویہ مثبت نہیں پایا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ماحول آگے نہ بڑھ سکا ہے اور جمود جوں کا توں تندرست و توانا اپنی جڑیں مظبوط کرتا رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب کی بار کوئی چوں چوں کا مربع نہ بنایا جائے بلکہ اس دفعہ اگر کوئی اتحاد یا اشتراک عمل ہو تو وہ کم از کم ایک جامع اور بااصول اتحاد یا اشتراک عمل ہونا چاہیئے کیونکہ ہم مزید کسی اور بحران اور پاکستانی طرز سیاست کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس ضمن میں سنگت حیربیار مری کی طرف سے ایک دو ٹوک اور واضح روڈ میپ سامنے آ چُکا ہے جس کو اپنا کر ہم ایک اصولی اتحاد یا اشتراک عمل کی جانب بڑھ سکتے ہیں یا پھر اگر سنگت کی جانب سے متعارف کیا گیا روڈ میپ ناقابل قبول ہے تو اخلاقی اور اصولی طور پر یہ قانون لاگو ہوجاتا ہے کہ اگر دستیاب چیز آپ کو قبول نہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز سامنے لائی جائے جس سے بہتر نتائج کی امید یا توقع کی جاسکے۔ دوستوں کو یاد دلانے کے لئے سنگت حیربیار مری کی جانب سے پیش کردہ ان نکات کو یہاں درج کرنا مناسب ہوگا کیونکہ شائد کسی کے پاس ان سے بہتر کوئی فارمولا اور روڈ میپ میسر ہو۔ مندرجہ ذیل میں تحریر وہ دو نقاط ہیں جن کی بنیاد پر بلوچ قوم ایک اصولی اتحاد یا اشتراک عمل کا حصہ بن سکتی ہے۔
1۔ بلوچ کی طاقت بلوچ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
2۔ بلوچ آزادی کی تحریک میں بر سرپیکار پارٹیاں اور تنظیمیں کسی ملک یا ادارے کی پروکسی نہیں بنیں گی۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو بحیثیت ایک رہنما کے ان دو نقاط سے کیا اعتراض ہے یا آپ کے پاس ایسی کونسی دلیل ہے جس سے آپ ہم جیسے چھوٹے سیاسی کارکنوں کو مطمئن کرسکیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دو نقاط مکمل طور پر بلوچ قوم کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں اور اگر انہی دو نقاط کو مان لیا جائے تو مسائل کم ہوسکتے ہیں اور نئی راہیں کھل سکتی ہیں مگر یہ بات ہر کسی کو اپنے ذہن سے نکال لینی چاہیئے کہ بلوچ سیاسی کارکن ہرسیاہ کردار و عمل پر اپنی آنکھیں بند کرلیں گے۔ جو لیڈر یا تنظیم بلوچ قومی مفادات کے خلاف کوئی عمل کریگا اس پر سوال ضرور اٹھایا جائے گا اور بے رحم تاریخ اس کے کردار کی صحیح وضاحت کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب سے ایک اور درخواست یہ بھی ہے کہ وہ انا اور اختلافات کا ذکر تو کر بیٹھے مگر انہوں نے کوئی نشاندہی نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ڈاکٹر صاحب قوم کو اعتماد میں لیں اور انا اور اختلافات رکھنے والوں کی وضاحت کریں تاکہ کم از کم ہمیں بھی پتہ چلے کہ وہ کون سا ایسا بدبخت شخص ہے جس نے قومی مفاد اور قومی بقا کو اپنی انا کے نیچھے دبا دیا ہے۔ اب کم از کم وہ دور نہیں رہا کہ سیاسی کارکن کسی چیز کا ادراک نہیں رکھتے بلکہ اب تمام سیاسی کارکن باشعور ہیں اور کچھ ٹیکنالوجی کی مہربانیوں سے چیزیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ آپ کا بلوچستان لبریشن چارٹر کے حوالے سے بیان کہ “یہ چارٹر ایک نیک عمل ہے، بلوچ قوم کو اس کی حمایت کرنی چاہیئے” بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور اس کے بعد اپنی بات سے مکر جانا بھی سب کو یاد ہے۔ یو بی اے کے حوالے سے آپ کے رویے کے خدوخال آپ کے آجکل کے دوست بشیر زیب نے واضح کیئے ہیں اور اس کے بعد بی ایل اے کو دو لخت کرنے اور بی آر اے کو تقسیم کرنے کے پیچھے بھی آپ کا کردار واضح ہے جہاں ایک کمانڈر تنظیم کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ اس کو نہ صرف پناہ گاہ میسر کرتے ہیں بلکہ ان کو مکمل مدد بھی فراہم کرتے ہیں جس سے انتشار در انتشار جنم لیتا ہے اور دوریاں مزید بڑھتی ہیں۔ اب آپ کے بیان کو کس زاوئیے سے لیا جانا چاہیئے اس کا فیصلہ شائد میں نہ کرسکوں لیکن سنجیدگی ٹوئیٹر سے جنم نہیں لیتی بلکہ سنجیدگی کا دارومدار آپ کے اعمال سے ہے۔
میرے منہ میں خاک لیکن جب تک خالی خولی بیانات ہونگے اور اس کے پیچھے کوئی فارمولا یا روڈ میپ و عملی مظاہرہ سامنے نہیں آئے گا، ہم لاکھ بھی چاہیں تو اس کو سنجیدہ نہیں قرار دے سکتے بلکہ وقت گزاری اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی تصور کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ اس دفعہ آپ ہمارے خدشات کو غلط ثابت کرتے ہوئے کوئی عملی روڈ میپ لیکر آگے آیئں گے کیونکہ قوم نے بہت مار کھائی ہے، بہت زیادہ نقصان بھی اٹھایا ہے اور آنے والے دنوں میں آپ کے بقول قوم کو اپنی بقا کا بھی شدید خطرہ لاحق ہوگا بلکہ خطرہ ہے مگر اس خطرے کو ایک قومی اتحاد اور اشتراک عمل سے ہی شکست دیا جاسکتا ہے۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو