کل شام پنجگور سے نکلنے والی بد نصیب بس کے بد قسمت مسافر جب کراچی کی طرف سفر پر نکل چکے تھے تواُنہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے اس قاتل قومی شاہراہ پر اپنے موت کو لگا لیں گے.بس میں اپنے والدین کے ساتھ کراچی کی طرف سفر کرنے والے بچے شاید شام سے لے کر رات کے دو بجے تک یہی سوچ اور خوشی سے بس میں سوار تھے کہ کل وہ کراچی پہنچ کر مختلف قسم کے کھلونے خرید کر واپس پنجگور لوٹ جاتے ہیں اور خواتین اس اُمید سے رحت سفر باندھ چکے تھے کہ وہ زندگی کے تمام بنیادی سہولیات سے محروم پنجگور سے نکل کر کراچی کے ہسپتالوں میں اپنی علاج کرکے اپنی زندگی میں کچھ وقت کا اضافہ کریں گے لیکن وقت بھی بڑا بے رحم اور ظالم چیز ہے کہ بیلہ کے مقام پر اُن کا بس تیز رفتاری کی وجہ سے اُلٹ گئی اور بس میں سوار خواتین اور بچوں سمیت چودہ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اُن کی زندگی کے خاتمے کااعلان ایک ایسے علاقے میں ہوگیا کہ وہاں بس کے اندر تین گھنٹہے تک تڑپ تڑپ کر موت کے منہ چلے جاتے ہیں.
سفر کرنے والے افراد کے رشتہ داروں اور گھر والوں نے یہ سوچا تک نہ تھا کہ وہ اپنے پیاروں کو رخصت کرکے دوسرے دن اُن کی جسد خاکی کو ایمبولینس سے وصول کریں گے.جابحق افراد کے گھر والے شاید اسی اُمید سے اُن کو رحصت کر چکے تھے کہ اُن کی واپسی سلامتی اور خوشی سے ہوگی اور پنجگور میں سردی کے دو تین ہفتے گزار کر وہ دوبارہ خوشی سے پنجگور کارخ کریں گے.
اصل میں ہم بھولنے والے اور لاپرواہی کا ریکارڈ تھوڑنے والے ایک ایسی قوم اور ایک ایسی دھرتی سے تعلق رکھنے ہیں کہ ہم اپنی پسماندگی اور احساس محرومیوں کی وجہ سے اس ملک کے بننے سے لے کر اب تک حادثات کا شکار ہو کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں.گزشتہ سال اسی مہینے میں بیلہ کے مقام پر حادثے کے شکار افراد کی میتوں کو دفنانے اور اُن سے اظہار تعزیت کرنے کے بعد ہم نے کیا کچھ سیکھا اور اِس طرح کے حادثات سے بچنے کیلئے ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور کرپشن کی مرض میں مبتلا نااہل حکومت نے کیا کیا کہ شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کو یہ تسلی ہو جائے کہ اب وہ محفوظ طریقے سے سفر کر سکیں گے.ہم جلد بھول جاتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد وہی دُہراتےطہیں جس سے ہم نے اپنی پیاروں کو موت کے منہ تک.خود دھکیل دیا ہے. گزشتہ دنوں تربت جانے والی بس کے حادثے کے بعد حکومت کی طرف سے کیا اقدامت کئے گئے اور کون سی ٹرانسپورٹ اور اسـکے زمہ داروں کے خلاف کاروائی کی گئی.جس طرح ہزاروں کی تعداد میں ہونے والی حادثات سے ہزاروں کی تعداد میں شہید ہونے والے افراد کو ہم بھول چکے ہیں اسی طرح کل رات حادثے کا شکار بس کے تمام شہدا اور ہسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں کو ہم دفنانے اور تعزیت کے چند شبد ادا کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں اور زندگی کو پھر اسی طرح شروع کرکے آگے بڑھیں گے اور مستقبل میں ہزاروں ایسے واقعات کا شکار ہو جانے کو تیار ہوتے ہیں.ہم انسان کے روپ میں سنگ دل رکھنے والے آدم خور ہیں اور ہمارے حکمران انسانیت اور انسانی جانوں سے لاعلم ایسی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں کہ اُنہیں عوام کی درد اور تکلیف سے کوئی سروکار نہیں اور اُن کو صرف تعزیت کرنا آتا ہے.وہ حکمران جو اپنے سیاسی مقاصد اور زاتی مفادات کیلئے کئی پارٹیاں بدلتے ہیں اور کرپشن کی خاطر کیا سے کیا نہیں کرتے لیکن کوئٹہ سے کراچی تک کی خطرناک روڈ کو بہتر بنانے اور انسانی جانوں کو ضایع ہونے سے بچانے کیلئے وہ وفاقی حکومت پر کوئی دباو نہیں ڈالیں گے کہ اسی روڈ سے ہماری نسلیں ختم ہو رہی ہیں.
اب بات حد سے آگے نکل چکی ہے اور اس قوم کو لاشیں اُٹھانے کے بجائے کچھ عملی کام کرناہوگا یا قیمتی جانوں کو بچانے کیلئے ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو مجبور کرناہوگا کہ وہ اپنی لاپرواہی کو ختم کرکے انسانی قیمتی جانوں سے اپنی اس کھیل کو ختم کریں.حکومت تو اپنی موج مستیوں اور عیاشیوں سمیت کرپشن کرنے پر لگاہوا ہے اور اُن کو عوام کی دکھ، تکلیف اور پریشانیوں سے کوئی سروکار نہیں لیکن بلوچستان کے عوام کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنی اس بنیادی حق کیلئے خود عملی جدوجہد شروع کریں اور خواب خرگوش میں سونے والی وفاقی حکومت اور اس سرزمین سے دغا کرنے والے صوبائی نام نہاد لیڈران کو ایک پیغام دیں کہ اب مظلوم عوام کی حالت پر رحم کرکے کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ کی تعمیر کو یقینی بنائیں یا یہ حکمرانی کا ڈرامہ رچانے کی اس کھیل کو بند کریں.اگر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تمام وفاقی اور صوبائی وزراء ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے فنڈ سے صرف دس فیصد اسی روڈ پر خرچ کرتے تو آج شاید ہم اپنے پیاروں کو اسی طرح موت کی منہ سے نہیں دھکیل رہے ہوتے.
بلوچستان میں کروڈوں روپے فنڈ رکھنے والے محکمہ ٹراپسپورٹ اور سینکڑوں کی تعداد میں تعینات آفیسران تو اپنی زمہ داریوں سے اس طرح غافل ہیں کہ وہ زمہ داریوں کو بنھانا تو دور کی بات اُن کے محکمے کے بارے میں شاید کسی کو معلوم ہو.بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ٹرانسپورٹ مالکان کی عدم دلچسپی اور ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہی سے سینکڑوں ایسے غیر زمہ دار ڈرائیورز آپ کو ملیں گے کہ وہ جسمانی طور پر ڈرائیونگ کے قابل نہیں اور اسی ناکارہ سڑک پر گاڈی اس طرح چلاتے ہیں جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے.اب ہم یہی بھول جانے کی عمل کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے اس اجتماعی مسئلہ کے حل کیلئے متحد ہوجائیں اور تعزیتی کلمات ادا کرنے والے اپنے نام نہاد سیاستدانوں پر یہ دباو ڈالیں کہ یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے اور اس کو اجتماعی طور پر لے کر اس سڑک کی مرمت اور اس کو دوطرفہ بنانے کیلئے بلوچستان کے عوام کو جدوجہد کرنا چاہیئے.