جنیوا(ہمگام نیوز) مورخہ 19 فروری 2021 کو اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر ارادی گمشدگی کے 123 ویں جائزہ اجلاس میں بلوچ ہیومن رائٹس کونسل (بی-ایچ-آر-سی ) نے ورچوئل شمولیت کی. اس اجلاس میں بی-ایچ-آر-سی کے انفارمیشن سیکرٹری کمبر مالک بلوچ نے بلوچستان کی صورتحال سے متعلق 45 منٹ پر محیط ایک تفصیلی بریفنگ دی اور بلوچستان میں ریاستِ پاکستان کی جانب سے بلوچوں کی جبری گمشدگی کے معاملہ پر ورکنگ گروپ کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔
اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کی اجلاس چیئر ریپورٹر جناب تئی-اونگ بیک کے زیر صدارت منعقد ہوئی جبکہ محترمہ آؤا بالڈے سمیت اقوم متحدہ کی ورکنگ گروپ برائے جبری و غیر ارادی گمشدگی کی سیکرٹریٹ کے دیگر عہدیداران بھی اجلاس میں شامل تھے۔ بی ایچ آر سی کے نمائندے نے بلوچ اور پاکستان کے مابین جاری تنازعہ کے پس منظر میں جس کے نتیجے میں ریاستی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے ہزاروں بلوچوں کو جبری طور لاپتہ کیا گیا کے معتلق اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کو تفصیلی پریزنٹیشن پیش کی.
انہوں نے ریاستی حکام کی جانب سے بلوچوں کی اغوا، تشدد و قتل اور لواحقین کو دھمکا کر چھپ رکھنے کے حوالے سے مختلف واقعات کا حوالہ دیکر ریاستی مظالم کی نوعیت کا ایک تفصیلی خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان کے اندر نہ صرف بلوچستان تک محدود ہے بلکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ بھی جبری گمشدگیوں کے عمل سے متاثر ہیں. مگر ان جبری اغواکاری کی نوعیت بلوچستان میں پورے پاکستان سے زیادہ اور شدید تر ہے.
بی-ایچ-آر-سی کے نمائندے نے ورکنگ گروپ کے ممبران کو مطلع کیا کہ پاکستان کی ریاستی اسٹیبلشمنٹ ملکی و عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے قرار دادوں کو پامال کرتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ہر عمر کے بلوچوں حتٰی کہ نابالغ و ضعیف العمر مرد،عورتوں و بچوں کو جبری طور اغوا کررہی ہے، اور شدید تشدد کے بعد کئی لاپتہ افراد کی لاشیں بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں پھینکی جا چکی ہیں یا نامعلوم مقامات پر اجتماعی قبروں میں انہیں دفنایا جاتا ہے. توتک خضدار اور پنجگور کے مختلف علاقوں سے اجتماعی قبروں کی برآمدگی اس کی واضح مثالیں ہیں.
اس اجلاس میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے بھی اپنے اقارب کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں گمشدگی کے متعلق اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کے سامنے اپنے روداد بیان کیے اور ورکنگ گروپ کے ممبران سے کہا کہ ہم نے پاکستان کے عدلیہ ،لاپتہ افراد کے برائے نام سرکاری کمیشن سمیت تمام انتظامی اور عدالتی اداروں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے رجوع کیا مگر ہمیں سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا البتہ ہمیں اکثر ان اداروں میں ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑا. جبری اغوا کے شکار ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ اور لاپتہ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ از خود اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے روداد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ جب وہ دو ہفتے قبل کوئٹہ میں کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرانسیز کے سامنے پیش ہوئے تھے تو کمیشن کے سربراہ نے ان سے توہین آمیز سلوک کیا تھا اور حقارت آمیز جملے کہے تھے. ماضی میں جبری اغوا کا شکار ہونے والے بلوچ نوجوان نے بھی اپنی روداد بیان کی کہ دوران جبری اغوا کس طرح ان پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا اور اس دوران انہیں ہر طرح کی قانونی اور طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا.
بی-ایچ-آر-سی کے نمائندے نے کہا کہ پاکستان و بلوچ تنازع کے خواتین و بچے برائے راست فریق نہیں ہیں مگر اس تنازع کے سب سے شدید ترین مضمرات کا سامنا انھیں کرنا پڑ رہا ہے جن کے اپنوں کی گمشدگی کے منفی سماجی اور معاشی اثرات کا سامنا کرنے سمیت وہ شدید ذہنی کرب میں بھی مبتلا ہیں. انہوں نے دستاویزی ثبوت فرائم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف جنگی و انسانیت کے خلاف جرائم کے ثبوت ہونے کے باوجود بھی ریاستی فورسز ہر قسم کی ملکی و عالمی سزا سے مُستشنیٰ ہیں.
اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ نے حانی بلوچ (کہ جنھیں انکے منگیتر نسیم بلوچ کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا لیکن بعد میں حانی کو تشدد کے بعد رہا کیا گیا مگر نسیم بلوچ اب تک ریاستی سیکورٹی فورسز کی تحویل میں ہے) کی کیس کومتوجگی سے سن کر اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا. بی ایچ آر سی کے نمائندے نے حانی بلوچ کے کیس کو متعدد دیگر کیسز کے ساتھ اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کے نمائندے کے سامنے پیش کیا تھا.
اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کے نمائندوں نے بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کے نمائندے کو یقین دہانی کرائی کہ وہ پاکستان اور بلخصوص بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں اور وہ لاپتہ بلوچ افراد کے کیسز کے اندراج سمیت ان کیسز کے بارے میں حکومت پاکستان سے پوچھ گچھ کے حوالے سے بی-ایچ-آر-سی کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے.
اسکے علاوہ بلوچ ہیومن رائٹس کونسل نے لاپتہ بلوچ افراد کے خاندان اور دوستوں سے التجا کی ہے کہ وہ جبری گمشدہ اپنے پیارے چاہے انکا تعلق کسی بھی سیاسی یا سماجی تنظیم سے ہو یا وہ غیر سیاسی ہوں کے کیسز اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر ارادی گمشدگی کے پاس اندراج کرانے کے حوالے سے انکے ای میل bhrcuk @ gmail .com پر رابطہ کریں. وہ بنا کسی تفریق کے ان کیسز کے اندراج کے حوالے سے کمیونیکیشن فارم کو پر کرنے اور انہیں جمع کرانے میں ان خاندان اور ان کے دوستوں کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور ان کیسز کے اندراج کے بعد کی ہر پیش رفت کے بارے میں انہیں آگاہ رکھیں گے.