جرمنی (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق کرد سیاستدان نزر ایسی ٹیوز جو کاسل کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم تھیں، انھیں بدھ کی شام کو واپس ترکی جلاوطن کرنے کے لئے فرینکفرٹ ایئرپورٹ لے جایا گیا تھا۔
تاہم سوشل میڈیا پر ان کی جرمنی سے ترکی کی جانب ڈیپورٹیشن کے خلاف مہم شروع ہونے کے بعد احتجاج کے دوران ہی نذر کی ملک بدری کا فیصلہ معطل کردیا گیا۔
ایسیٹوز کو ملک چھوڑنے سے قبل ترکی میں پانچ سال چار ماہ قید کی سزا سنا دی گئی تھی اور سنہ 2016 میں جرمنی میں پناہ مانگنے سے پہلے وہ ایک پیس کمیٹی میں حصہ لینے کے دوران زخمی ہوگئی تھیں۔ پیس کمیٹی کے رضاکاروں نے یہ تنظیم زخمیوں کو بچانے کے لئے 2015 میں کرد صوبہ سیزر میں کرفیو کے دوران قائم کیا تھا۔
ترک انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم مظلومڈر کے مطابق 14 دسمبر سے 2 مارچ 2015 کے درمیان 78 روزہ ترک فوج کی جارحیت کے دوران 200 سے زائد افراد ہلاک اور 10،000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے تھے۔
نذر ایسیوٹز نے واضح طور پر کہا ہے کہ مجھے ترکی سے جلاوطن کرنے کی صورت میں مجھ کو وہاں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑیگا۔انہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ مانگنے کی بنیادوں کے بارے میں اپنے بیان میں کہا کہ میں غیر قانونی طور پر جرمنی 2016 آئی تھی ۔ میں 2005 سے سیاسی کاموں میں سرگرم عمل رہی ہوں۔ ریجنز ڈیموکریٹک پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے اپنی جاری سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مجھے متعدد بار نظربندی اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مجھے ترکی کی سیاسی نسل کشی کے چھاپوں میں گرفتار کیا گیا تھا جو کردستان کمیونٹی یونینز کی کارروائیوں کے نام سے شروع ہوا تھا،جس کے بعد مجھے پانچ سال اور چار ماہ تک جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
ایک طویل عرصے کی نظربندی کے بعد عدالت کی سزا سے قطع نظر مجھے ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ طیب اردگان ترک عدالتوں کے ذریعے ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا اب ہم قصوروار نہیں تھے لیکن ہمیں سیاسی یرغمال بناکر جیل میں رکھا گیا تھا جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی دباؤ اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ میں نے ایچ ڈی پی کے لئے کام کیا اس عرصے کے دوران سیزر میں نوجوانوں ، خواتین اور بچوں کو سڑکوں پرہلاک کیا گیا۔ میں پیس ڈیلیگیشن کی ممبر تھی اور اس پیس ڈیلیگیشن کےکئی افراد کو ریاست کی فوج نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ایسی تصاویر بھی دستیاب ہیں جو ان واقعات کی تصدیق کرتی ہیں۔
ایسی ٹیوز نے مزید کہا میں بچ گئی لیکن زخمی ہوگئی یہاں تک کہ میرے کچھ دوست فوت ہوگئے۔ ہمارا مقصد شہریوں کی زندگیاں بچانا تھا.
میرے خاندانی گھر کے ساتھ سیزر کے علاقے میں سینکڑوں خاندانوں کے گھروں کو تباہ اور جلایا گیا۔ میں اس قتل عام سے بچ گئی جو ترک ریاست نے پوری دنیا کے سامنے کیا تھا لیکن مجھے وہاں محفوظ طریقے سے رہنے کا کوئی موقع نہیں ملا اسی وجہ سے مجھ سمیت سینکڑوں افراد کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔
ایسی ٹیوز کو ملک بدر کرنے کی کوشش کے فیصلے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔
ایسی ٹیوز نے کہا کہ سیاسی پناہ کے لئے میں نے ہر ثبوت پیش کیا لیکن شاید جرمنی کیلئے یہ ثبوت ناکافی ہیں ۔جرمنی کو پتہ نہیں ہے کہ میں سیاسی پناہ کے لئے کافی کرب سے گزر چکی ہوں ۔جرمنی کو یہ سوچنا چاہئے کی میں ترکی میں ماری یا زندگی بھر کے لئے جیل جا سکتی ہوں۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ترکی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مشہور ہے اور جیلوں میں مجھے انسانی وقار کی خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ لیکن یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ جرمنی مجھے ترکی کیوں واپس بھیجنا چاہتا ہے؟