خضدار (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ ڈیسک رپورٹس کے مطابق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی خضدار کیمپس کے طلبہ وطالبات آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی خضدار کیمپس سے ریلی نکال کر خضدار پریس کلب کے سامنے تک ایک سو کے قریب طلبہ وطالبات نے ریلی میں شرکت کی۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے خلیل الرحمن، سلمہ صمد، فاطمہ، اور زکیہ نے کہاکہ ہمارے ان علاقوں میں تعلیمی ادارے اور حصول تعلیم کے زرائع ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت کم دستیاب ہیں، اس لیئے ہمارا سب سے زیادہ انحصار ملک کے معروف ادارہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام تعلیم پر ہے، سالانہ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات اس ادارے سے مستفید ہوکر اپنی تعلیم مکمل کررہے ہیں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرف زیادہ رجحان کی بنیادی وجہ اس کا فاصلاتی نظام ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقوں میں دستیاب سہولیات سے ہم آہنگ اس کی پالیسیاں تھیں، چونکہ ہمارے بلوچستان اور فاٹا سمیت ملک کے دیگر دوردراز حصوں میں غربت پسماندگی ،اور جدید سہولیات کافقدان کا مسئلہ زیادہ ہے جس کے باعث یہاں سے تعلق رکھنے والے طلبہ دیگر شہروں میں مہنگی تعلیم کی استطاعت نہیں رکھتے اور ان کی آخری امید اوپن یونیورسٹی کا نظام تعلیم ہی ہے۔
مقررین کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے ان طلبہ دوست مفید پالیسیوں میں غیر محسوسانہ انداز سے تبدیلی کرکے غریب طلبہ و طالبات کی امیدوں پر پانی پھیررہی ہے حالیہ تشویش ناک فیصلہ آن لائن ورکشاپس کے بعد آن لائن امتحانات کا ہے جو کسی صورت دانشمندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق نہیں، یہ یہاں کے وہ طلبہ و طالبات بہتر انداز میں محسوس کرسکتے ہیں کہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں انہوں نے کتنی مشکلات اور اذیت سہہ کر آن لائن ورکشاپس اٹینڈ کی ہیں، بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس کی ناقص سہولیات، جدید ٹیکنالوجی کے آلات سے ناواقفیت، غربت کے باعث طلبہ و طالبات کے پاس معیاری موبائل اور کمپیوٹر و لیپ ٹاپ وغیرہ کا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔
ایک مقرر نے کہا کہ یہاں کا سب سے بنیادی اور پریشان کن معاملہ بلوچستان کے کئی اضلاع جن میں قلات ڈویژن سرفہرست ہے جن کے کئی علاقوں(قلات،سوراب منگچر گدر آوارن مشکےپنجگور،) میں پچھلے چار سال سے انٹرنیٹ سروس مکمل معطل ہے جبکہ خضدار شہر کے علاوہ ملحقہ سب ڈویژنز اور تحصیلوں اورناچ زہری گریشہ کرخ مولہ وغیرہ میں یاتو نیٹ ورک موجود نہیں یا پھر دستیاب نیٹورک بھی انتہائی ناقص ہے اس صورت حال میں یہاں کے طلبہ و طالبات سے آن لائن امتحان لینے کا فیصلہ سراسر غیر منطقی اور ان کے مستقل سے دانستہ کھیلنے کی سازش ہے، جس پر ہرصورت نظرثانی کی ضرورت ہے۔
احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم تمام متاثرہ طلبہ و طالبات اپنی اس مجبوری اور مشکل کو لیکر آج میڈیا پر اپنے صحافی بھائیوں کی مدد حاصل کرنے یہاں آئے ہیں کہ وہ اپنے قلم اور کیمرے کی طاقت سے اسلام آباد میں بیٹھے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے بے حس منتظمین کو یہاں کے زمینی حقائق اور ہماری مشکلات سے آگاہ کریں ، ہم نے اپنے کورسز کے مہنگے فیسز کی ادائیگی کے لئے کس قدر جدوجہد کی ہے اور کن مشکلات کا سامنا کیا ہے، علاقہ کے معاشی حالات کے پیش نظر آپ حضرات کو بخوبی احساس ہوگا، ان تمام مصائب اور سختیاں جھیلنے کے بعد اب ہمیں آن لائن امتحان کے نام پر ناقابل برداشت آزمائش اور ناممکن عمل میں الجھانا ہمارے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔
آخر میں انھوں نے کہا کہ جس پر ہم سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فیصلہ ساز اعلی حکام ادارے کے موجودہ وائس چانسلر، کنٹرولر اور ایگزامر جوکہ ان ناروا فیصلوں کےنفاذ میں کردار ادا کررہے ہیں، ان سے. ہماری گزارش ہے ہمارے صوبے میں دستیاب سہولیات، طلبہ و طالبات کی مالی حالات، جدید آلات سے ان کی آگاہی سمیت خصوصاً ہمارے اضلاع میں چار سال سے بند انٹرنیٹ سروس کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں بصورت دیگر ہمارے پاس اس ناممکن عمل فیصلہ کے خلاف امتحانات سے بائیکاٹ اور اپنے حق کے لئے شدید احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا جس میں شدت لانے کے لئے ایک موثر لائحہ عمل طے کریں گے جس میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں احتجاج اور کوئٹہ پریس کلب میں تفصیلی پریس کانفرنس بھی شامل ہے۔