کابل(ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کے مطابق افغانستان کے شمالی شہر مزارِ شریف میں چار خواتین کے قتل کے بعد خوف کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق طالبان کا دعویٰ ہے کہ خواتین کو قتل کرنے کے واقعے میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے شمالی افغانستان میں ایک گھر سے چار خواتین کی لاشیں ملی تھیں۔ جن میں ایک انسانی حقوق کی سرگرم رکن بھی شامل تھیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِداخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے انہوں نے خواتین کو اس گھر میں دعوت دی تھی۔
البتہ انہوں نے ملزمان کے جرم کے اعتراف کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے اور کیس مزید تفتیش کے لیے عدالت بھیج دیا ہے۔
افغانستان میں جن چار خواتین کو ہلاک کیا گیا ان میں سماجی کارکن فروزون صافی بھی شامل ہیں جو افغانستان میں خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم رکن تھیں۔
اس واقعے کے بعد پورے افغانستان میں انسانی اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کی تشویش بڑھ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ‘ایوسی سی ایٹڈ’ پرہس کی ایک رپورٹ کے مطابق زین الدین محمد بابر کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر سید عظیم سادات کا کہنا ہے کہ فروزون صافی طالبان کی حکومت کے دوران خوف کا شکار تھیں اور وہ جلد افغانستان سے نکلنا چاہتی تھیں۔
ان کے بقول کچھ عرصے قبل انہیں ایک ٹیلی فون موصول ہوا جس کے بعد انہوں نے اپنا گھر چھوڑا۔ کال میں انہیں ایک محفوظ مقام پر بلایا گیا تھا جہاں سے بعد میں انہیں بیرونِ ملک منتقل کرنا تھا۔
ان چاروں خواتین کی ہلاکت کے بعد اس نوعیت کی مختلف خبریں سامنے آ رہی ہیں جس میں خواتین کو مختلف نمبروں سے ٹیلی فون کالز کرکے بیرونِ مملک جانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان کی جانب سے افغان خواتین اور لڑکیوں سے کیے گئے وعدے توڑنے پر سخت تشویش ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول وعدوں کو توڑنا افغان خواتین کے خواہوں کو توڑنے کے مترادف ہے۔