ژوب (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بلوچستان کے علاقے ژوپ کے ایک معروف سیاحتی مقام پر ہفتے کو سینکڑوں افراد ایک منفرد جرگے میں جمع ہوئے۔ ممکنہ طور پر اپنی نوعیت کے پہلے ایسے جرگے میں کسی قتل، زمین کے تنازعے یا قبائلی جھگڑے کے حل کی بات نہیں ہوئی بلکہ یہ نایاب جنگلات اور پرندوں کے تحفظ کے لیے بلایا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق جرگے کا انعقاد نوجوانوں کے ایک گروہ نے کیا، جو اشر مہم کے تحت درخت لگانے اور ان کی حفاظت کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہ اپنی نوعیت کا واحد جرگہ تھا، جو روایات سے ہٹ کر ایک عام سمجھے جانے والے مسئلے کے حل کے لیے طلب کیا گیا۔
منتظمین سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی کامیابی ہے کہ لوگوں نے ان کی بات کو اہمیت دی۔
جرگے میں شرکت کرنے والے عبدالہادی جرگے کو جنگلات اور جنگلی حیات خصوصاً ہجرت کرنے والے پرندوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بڑا اہم قدم قرار دیتے ہیں۔
عبدالہادی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ژوب اور شیرانی میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور جنگلی حیات کے عدم تحفظ کے باعث یہاں ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اجتماعی طور پر کوئی کام کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پشتون معاشرے میں عموماً قبائلی مسائل اور آپس کے جھگڑے حل کرنے کے لیے جرگے بلائے جاتے ہیں، جن میں تمام متعلقہ قبائلی رہنما اور عوام شرکت کرتے ہیں، اور مسائل کا حل باہمی مشاورت سے نکالا جاتا ہے۔
ہادی کے بقول اس بار معاملہ اس وجہ سے بھی مختلف رہا کہ جرگہ بھی نوجوانوں نے طلب کیا اور اس کا ایجنڈا بھی روایت سے ہٹ کر تھا، جس میں موضوع جنگلات کے تحفظ اور باقی رہ جانے والے درختوں کی حفاظت کا تھا۔
’میں نے دیکھا کہ جرگے میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ علما، قبائلی رہنما، سیاسی رہنما اور ضلعی انتظامیہ کے افسران کے علاوہ محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے افسران نے بھی شرکت کی۔‘
مقررین نے شرکا کو بتایا کہ ہمیں جنگلات کی کتنی ضرورت ہے اور ان کے خاتمے سے ہماری زندگی اور آنے والی نسلوں کو کس طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔
ہادی کے مطابق ژوب اور شیرانی میں علاقے کے عوام سردی میں ایندھن کے حصول کے لیے درخت کاٹنےکو ترجیح دیتے ہیں، جس کے باعث یہاں پر جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ژوب اور شیرانی میں قدرتی جنگلات میں زیتون اور چلغوزہ پائے جاتے ہیں، اور ان کو بھی کاٹنے سے گریز نہیں کیا جاتا، جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔
ہادی کا کہنا تھا: ’مقررین نے بتایا کہ ژوب اور شیرانی میں زیتون اور چلغوزے کے درخت ہماری لیے کتنے فائدہ مند ہیں۔ ان سے ہمارے ماحول اور معیشت کو کتنا فائدہ مل رہا ہے، اور اگر یہ ختم ہوگئے تو ہمیں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔’
نوجوانوں نے جرگے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی اور اس کے لیے علما سے بھی مدد حاصل جبکہ مساجد سے بھی اس کے بارے میں اعلانات کروائے گئے۔
عبدالہادی نے بتایا کہ جرگے میں تقریباً 500 افراد نے شرکت کی، جن میں قبائلی مشران کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں نے بھی شامل تھے۔
پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا خاص طور پر سامنا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ان دس مملک میں ہوتا ہے جنہیں ماحولیاتی تبدیلی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس کا صوبہ بلوچستان بھی ایک شدید متاثرہ علاقہ ہے، جہاں بارشوں میں کمی سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے، اور خسک سالی، اور فلیش فلڈ عام ہیں۔ بلوچستان کے ضلع تربت میں مئی 2017 میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 53.5 سیلسیئس بھی ریکارڈ کیا گیا۔
ہادی نے بتایا کہ جہاں جنگلات کے حفاظت کی بات کی جائے اور وہاں ماحولیاتی تبدیلی کا ذکر نہ ہو یہ ناممکن ہے۔
ہادی نے بتایا کہ جرگے کے شرکا کو بلوچستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے اثرات اور بارشوں کے کمی اور اس کے تناظر میں جنگلات کی اہمیت اور حفاظت کے بارے میں بتایا گیا، جس سے شرکا کو آنے والے خطرے سے آگاہی ملی۔
انہوں نے بتایا کہ درخت لگانے کی مہم، اشر، کے بنیادی مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے بارے میں بتایا جائے، جس کے باعث اب لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں۔
ہادی نے بتایا کہ اشر کی مہم ژوب سے شروع کی گئی اور پھر اس کو شیرانی اور لورالائی تک وسعت دی گئی۔ اب اس کو قلعہ سیف اللہ اور دوسرے علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ اس مہم کو بعد میں بلوچ اکثریتی علاقوں تک بھی لے جانے کا مںصوبہ ہے تاکہ بلوچستان میں جہاں جہاں درختوں کو خطرات لاحق ہیں، وہاں تک یہ آواز بلند کی جائے۔ اس کے پہلے مرحلے میں مستونگ سے آغاز کیا جائے۔
اشر ایک قدیم روایت ہے، جس میں کسی بھی دیہی علاقے میں لوگ ایک دوسرے کے مسائل کو مشترکہ طور پر کام کرکے حل کرتے تھے، جس میں گھروں کی تعمیر، فصلوں کی کٹائی اور دیگر اجتماعی کام شامل تھے۔
یہ روایت بلوچستان کے بلوچ اور پشتون دونوں علاقوں میں رائج رہی ہے، تاہم وقت کے ساتھ لوگوں کے شہروں کی طرف نقل مکانی کے باعث اس میں کمی ہورہی ہے۔
چیف کنزویٹر فورسٹ نیاز کاکڑ نے شرکا کو بتایا کہ جنگلات کے تحفظ کے لیے حکومت اور عوام کو کیا کام کرنےکی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف ماحول بلکہ یہاں کی معیشت کو بھی تحفظ دیا جاسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے داؤد مندوخیل نے خطاب میں کہا کہ درخت بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کےبے دریغ شکار پر بھی بات کی اور کہا کہ اسے روکنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے معاملے پر کام کرنے کے لیے ہمیشہ حاظر ہے۔
ژوب کے اس جرگے میں شامل شرکا نے ایک قرارد بھی منظور کی جس میں کہا گیا کہ ضلع ژوب اور شیرانی میں جنگلات کی کٹائی اور پرندوں کے شکار پر مکمل پابندی ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ اداروں سے علاقے کے عوام کی نشاندہی پر تحفظ یقینی بنانے کی اپیل کی گئی۔
جرگے کے ممبران نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ سال کے 12 مہینوں میں موسم کی مناسبت سے درخت اور بیج کے علاوہ پودے لگائیں گے۔
شرکا نے درختوں کی حفاظت کے لیے متبادل منصوبے شروع کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ یہاں پر قدرتی جنگلات جن میں زیتون، چلغوزے اور شنے شامل ہیں، ان کو تحفظ مل سکے۔
جرگے نے اشر مہم کے لیے نوجوانوں کی کوششوں کو سراہا۔
جرگے نے جنگلات کو بچانے کے لیے ژوب، شیرانی اور زیارت میں حرارت کے متبادل ذرائع کی فراہمی اور زیتون کے درختوں کے اعداد و شمار جمع کرکے پیوندکاری کی تجویز دی۔
جرگے نے کہا کہ علاقوں میں ہر قسم کے شکار پر سختی سے پابندی کے علاوہ پہاڑوں میں جنگلی حیات اور پرندوں کے لیے پانی کے تالاب بنائے اور درخت لگائے جائیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے چیک ڈیمز بنانے، جنگلات کے تحفظ کے لیے محکمے کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافے، زیتون سے تیل نکالنے کے لیے مشین کی فراہمی، اور جنگلات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمے کے اندراج کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے حافظ ہارون رشید نے کہا کہ قرآن میں بھی زیتون کے درخت کا ذکر ہے، اور اسلام نے درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ ’ہمیں بھی درختوں کی کٹائی روکنے کے ساتھ نئے درخت لگانے کی ضرورت ہے۔‘