ھمگام آرٹیکل
تحریر: آرچن بلوچ
بلوچ قومی تحریک آزادی کو اگر تقسیم کی تناظر میں دیکھا جائے تو ‘بلوچ قومی قوت’ جو کہ ابتدائی طور پر قبائل کی شکل میں تھا، پر سب سے پہلا وار انگریز ایجنٹ مسٹر سنڈیمن کی جانب سے کیا گیا اور یہ وار ایسا کاری ضرب ثابت ہوا کہ جس کی سازشی اثرات سے آج تک بلوچ سیاست نکل نہیں پاسکا۔
جب ہم بلوچستان کی تاریخ کو بطور ریاست تاریخ کے کتابوں میں تلاش کیا تو ہمارے آباواجدا نے لگ بھگ 400 سالوں تک بلاشرکت غیرے اپنی وطن پر حاکمیت کی ہے۔اس خطے میں دوسرے اقوام کے ساتھ بطور قوم باعزت و پرافتخار و شایان شان طریقے سے آزادانہ زندگی گزاری ہے۔
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے جب عالمی سامراج برطانیہ کے حکمرانوں کو یہ واضع نظر آیا کہ اس کے وسیع تر قومی مفادات کو مستقبل قریب و بعید میں دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی محفوظ بنانا ہے،جس کیلئے انھوں نے بڑی بے رحمی سے دنیا کے بیشتر اقوام کے سرزمین پر فوجی یلغار کی۔
ایک ایسا وقت آیا جب برطانوی نوآبادیات میں حکمرانی اس حد تک وسیع پیمانے پر محیط ہوئی ،جہاں لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ برطانیہ دنیا کا وہ طاقت ہے جس کی زیر تسلط نوآبادیات میں حکمرانی کی وجہ سے کہی بھی سورج غروب نہیں ہوتا۔
اسی طرح انھوں نے 1836 کو بڑی ہنر مندی اور دھوکہ دہی سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر جنوبی ایشیا میں وارد ہوا ،جس میں انھوں نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے یہ کہاں کہ ہم تو ہندوستان میں صرف مصالحہ جات کی کاروبار کرنے آئے ہیں۔لیکن وہ ایسا محض بہانہ بناکے سب سے پہلے ہندوستان پہنچے۔اس کے بعد ان کے شر و فساد سے ہندھ سندھ بلوچستان و افغانستان کوئی بھی وطن معفوظ نہیں رہا۔ جبکہ حقیقت میں ان کے عزائم بیشتر فوجی سیاسی اور معاشی تھے ،جس کے بعد اس کے باقی خباثت آج تک اس خطے میں اپنے دیرپا اثرات کو لیکر اب تک قائم ہیں جسے اس خطے میں سب پہلے بلوچ ہی نے دوبارہ چیلنج کیا ہے۔ لیکن آج بھی سنڈیمنی زہنیت بلوچ کی قومی نجات کی قوت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے اب بھی انھی سنڈیمنی کلمہ کا ورد کرتے ہوئے مختلف شکلوں اور کئی ظاہر کئی پس پردہ معلوم کرادروں کے ساتھ اپنے شیطانی نظریہ کو آگے بڑھانے میں مسلسل مصروف یے۔
برطانوی سامراج کی اس دور کی پالیسیز نے اس پورے خطے کی سیاسی جغرافیائی معاشی معاشرتی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دی۔
جس میں سب سے زیادہ نقصان بلوچ قوم نے اٹھایا۔کیونکہ برطانیہ کے مفادات کے خلاف اور اپنی قومی مفادات و عزت کی خاطر بلوچ حکمران ڈٹ کر کھڑے رہے۔جب برطانوی فوج کو اس خطے میں سخت مزاحمت کا سامنا ہوا تو انھوں نے اس ردعمل کی وجوہات اور اس کی جڑوں کو تلاش کرنے کیلئے انھوں نے تحقیقی مطالعہ سے کام لیا۔جسے انھیں ہر صورت تلاس کرنا تھا۔جس میں انھیں بلوچستان میں مرکزی قوت کا منبع بلوچ معاشرے کی سینکڑوں سالوں کی دی ہوئی ہوئی ان کی اپنی وہ سرداری نظام سامنے آیا۔جس کو بلوچ قوم نے خود ترتیب دیا تھا۔سب سے پہلے انھوں نے اس نظام کو پاش پاش کرنے کیلئے سنڈیمن کو زمہ داری سونپ دی۔انھوں نے بلوچ قومی سرداروں کے مد مقابل متبادل کے طور پر اپنے حمایت یافتہ چاپلوس افراد کا انتخاب کرکے ان کو سرکاری سردار بنانے کے بعد خوب مراعات یافتہ بناکے قومی سرداروں کے خلاف لا کھڑا کیا۔ان بدبختوں نے برطانوی مفادات کی خاطر ان سے خوب نمک حلالی کی۔اس تاریخ کی تفصیل بہت طویل ہے قارعین کی سہولت کیلئے اس وقت اس موضوع کو زیادہ اختصار سے لکھنے کیلئے معزرت چاہتے ہے۔
آئیے دیکھتے ہے اس بارے بلوچ دانشور واجہ صورت خان مری کیا کہتے ہے۔
مری صاحب اپنی تحریر میں لکھتے ہے برطانوی سامراج محض عسکری قوت کے طور پر بلوچستان پر قابض نہ ہوسکے، بلکہ انگریزوں نے کمال ھوشیاری اور بڑی مکارانا حکمت عملی سے نہ صرف کچھ سرکاری سرداروں کو بلوچ مرکزی قوت کے خلاف لا کھڑا کیا بلکہ بلوچ گلزمین کو بھی غیر طبعی طور پر کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرکے بلوچ “قومی قوت” کی جملہ مزاحمتی مراکز کو کمزور کر ڈالا اور اپنے وفادار سرکاری سرداروں کو سادہ لوح عوام کے سامنے ہیبتناک کرداروں کے طور پر پیش کیا اور اپنے گرفت کو مزید مضبوط کرتے رہے۔
انگریز کی اس پورے دورانیہ میں نوآبادیاتی قبضہ گیریت کے خلاف نجات کا جو راستہ سوچھا گیا وہ تھا سرکاری سرداروں کے خلاف نعرہ جسے سب سے پہلے میر یوسف عزیز مگسی نے پیش کیا انھوں نے کہا کہ ان سرکاری حمایت یافتہ سرداروں کا سر کچلا جائے، یعنی یہاں قومی قوت کے مراکز وہ قبائلی سردار تھے جو قومی مفادات کی نگہبانی میں پیش پیش تھے۔ان کے مد مقابل انگریزوں نے اپنے وفادار سرکاری حمایت یافتہ سردار سامنے لائے اور بلوچ نے ان کے سر کو کچلنے کا نعرہ لگایا۔ لیکن 1935 کی زلزلہ اور میر یوسف عزیز مگسی کی ناگہانی اور بے وقت موت نے ایسا کوئی سبیل پیدا نہیں کرسکا جس سے بلوچ قومی طاقت کے تمام مرکز ایک جگہ پر جمع ہو جس سے قومی تشکیل ممکن ہوسکے!
انگریز کے سامنے بلوچ مزاحمت کا شکست و ریخت پاکستانی قبضہ گیریت پر منتج رہی ! پھر جہاں “جدید بلوچ قومی نظریہ” کو “قومی سطح کی تنظیمی ڈھانچہ” کی ضرورت پڑی تو وہاں پھر سنڈیمنی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کو ابن الوقت کہور خان جیسے نامنہاد دانشوروں یا سیاسی سوداگروں نے بلوچ نوجوان سیاسی کارکنوں کو فکری کجرو بناکے “بلوچ کے تمام مصیبتوں کا جڑ سردار” کو گردانتے ہوئے طبقاتی تقسیم کے نظریہ کے چورن کو دھوکے سے نجات کا وسیلہ پیش کیا۔ 1967 میں جب بی ایس او بنایا گیا تو قلیل عرصے کے فورا بعد سردار اور قبائلیت کے نام پر بلوچ طلبہ تنظیم کو تقسیم کیا گیا اینٹی سردار بی ایس او اور عوامی بی ایس او بنائے گئے۔ حالانکہ اصل حقیقت میں اس تقسیم میں نا کسی سردار کا ہاتھ تھا اور نا ہی کسی سردار نے اسے بنایا اور معتوب بھی سردار ہی کو ٹھرایا گیا۔
ڈاکٹر برکت اللہ نے جوش شاعری میں کہا کہ ،، اش کتگ من کہ لمبتگ سردارءِ کلات، من دلءَ جزماں منی ہمراہاں جتگ۔۔۔ لیکن تحقیق کرنے پر یہ پتا چلا کہ اینٹی سردار بی ایس او والوں نے جام آف لسبیلہ، نواب آف زھری اور نواب آف جھل مگسی کے قلعوں کو مسمار کیا ہے۔
1987 میں بی ایس او کے تمام ٹکروں کو یکجاہ کرکے بی ایس او کی ازسر نو تشکیل کی گئی 88ء میں جب ڈاکٹر یسین بی ایس او کا چیئرمین بنا تو اس نے شہید فدا احمد اور انکے ساتھیوں کی طرف سے بنائے گئے ایک واضع اور جامع قومی پروگرام پریس کانفرنس میں پیش کیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ تحریک کو قومی سطح پر استوار کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈروں کو دعوت دیا جائے تاکہ قومی سطح کی نمائندہ تنظیم وجود میں آسکے۔ یعنی غیر طبقاتی جدوجہد برائے حق خود ارادیت۔ ان اسٹیک ہولڈروں میں بلوچ لیڈر شپ میں سے نواب خیربخش مری شہید نواب اکبرخان بگٹی اور سردار عطاللہ خان مینگل متوقع طور پر مرکزی کردار خیال کیے گئے۔
لیکن ڈاکٹر کہورخان اس وقت ڈاکٹر یسین کے کابینہ کا سیکریٹری جرنل تھا تو اس نے فورا اس قومی پروگرام کے خلاف ایک پریس کانفرنس کر ڈالی اور اس شخص نے سنڈیمنی نظریہ کے مطابق دلائل دیے کہ بلوچ قوم طبقوں میں تقسیم ہے جس میں قبائلی سردار، جاگیر دار سرمایہ دار وغیرہ شامل اس لیے غیر طبقاتی جد و جہد ممکن نہیں لہذا بی ایس او ایسے پروگرام کو نہیں مانتی۔ پھر کیا ہوا اس نے بی ایس کو دو ٹکروں میں تقسیم کیا، اور آپسی مار دھاڑ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں فدا احمد بلوچ کو شہید کیا گیا۔ اور پھر اسی ڈگر پر چلتا رہا ہے، ڈاکٹر کہورخان نے بلوچ قومی تحریک کو مزید طبقاتی تقسیم کے نظریہ کے تحت ناقابل تلافی نقصان پہنچایا آخر میں کہورخان انعام کے طور پر سرکاری سیکرٹریٹ میں ملازمت حاصل کرلی۔ اور آج المیہ یہاں تک دیکھئے کہ ہمارے معصوم سیاسی ورکرز اسے ایک دانشور سجمھنے لگے۔
کوئی اسے سرکار کا اعلی ملازم تو کہہ سکتا ہے لیکن بلوچ قومی دانشور ہر گز نہیں!
کیا ہوتا اگر اس وقت بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی بی ایس او سے فارغ شدہ کیڈرز ، بی ایس او، سردار مینگل، سردار مری، سردار بگٹی متحد ہوکر ایک منظم قومی پارٹی تشکیل دیتے؟ اس کے مقابلے میں ڈاکٹر کہور کی تقسیم کا نتیجہ آج بلوچ قوم کیلئے کیا نکلا؟
آج بھی یہی طبقاتی سیاست کا منحوس فکرہ موجودہ رواں آزادی کی تحریک کے اندر زہر گول رہا ہے۔انگریز اور پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بلوچ قوت کے مراکز کو اپنے فائدے کیلئے اپنے ساتھ ملاتے رہے اور ہم طبقاتی نعروں کا سہارا لیکر انہیں اپنے سے جدا کرتے رہے!