شہید اسد مری نے بلوچستان کے مزاحمتی سیاست میں مرکزی اہمیت کے حامل علاقہ کاہان میں آنکھ کھولی کاہان جسے بلوچستان کے تاریخی مزاحمتی مورچے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش بلوچ سر زمین کی خاطر سر قربان کرنے والا بلوچ کے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں ہوئی جو کہ مادر وطن کی غلامی کے خلاف ہمیشہ صفحہ اول میں رہے.
بلوچ قومی سوچ اسد مری کو اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں ملی ان کا خاندان ستر کی دہائی سے بلوچ قومی تحریک آزادی سے وابستہ رہے ہے۔
اٹھارہ سالہ اسد مری بلوچ اپنی عمر سے کہی زیادہ بڑا تھا وہ عام نوجوانوں کی طرح نہیں سوچتا عمر کے جس حصے میں نوجوان اپنے خواہشات کا تقاضا کرتے ہیں وہ اسی عمر میں ایک عظیم شعور و فکر سے ہم شناس تھا وہ ایک مکمل انقلابی چنگاری تھا ۔ جو اپنے قومی فریضہ کو اپنے ہر سانس میں بھرتا وہ زندگی کے بے رحم لہروں سے کئی اونچا تھا۔ وہ اپنے وطن کا حقیقی عاشق اور انقلابی کتاب اس کے عشق کا عنوان تھا وہ ان انقلابی کتابوں سے اپنے محبوب وطن کے بے لوث محبت میں گرفتار ہوا تھا اور ایک کامل انقلابی ہونے کے لیے شعور علم اور تاریخ سے ادارک ہونا ضروری ہے اسد اسی منزل کا راہی بن چکا تھا وہ اپنے قومی وجود اور وحدت سے آشنا تھا اور ہر گزرتے وقت کے بھٹی میں پک کر اسد مری کا قومی سوچ و فکر مزید مضبوط ہوتا رہا وہ اپنے قومی فریضہ کو قریب سے سمجھ چکا تھا اب بس وقت آنے پر عملی میدان میں اپنے قومی سوچ کو قابض سامراج کے جڑوں کو ہلانے کے انتظار میں تھے.
مگر زندگی کے ان بے رحم لہروں نے قہر ڈھانا شروع کیا وہ محض 13 برس کا تھا کہ 2001 میں جب ان کے چچا شہید نورا مری اور ان کے بڑے بھائی کو دشمن ریاست کے ہاتھوں گرفتار کر کے جبری گمشدہ کیا گیا اس واقعے نے اسد مری کے سوچ کو قابض ریاست کے خلاف مزید پختہ کیا مگر قدرت اسد مری کو وقت کی کئی کسوٹیوں پر پرکھنا چاہتا تھا۔ جس میں وہ بالآخر کامیاب و کامران رہے۔
6 جنوری 2002 کا سرد مہینہ اسد مری پر آگ کے شعلوں کی طرح برسا جب شہداء قلات کا واقع پیش آیا جس میں اسد مری کے منجھلے بھائی واحد بخش مری کے شہادت کا واقعہ پیش آیا اس دوران اسد مری اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا کیونکہ اس وقت ان کا والد کاہان اور چچا ساراوان کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں کوہ ناگائی کے سلسلہ دار تلاروں میں اپنے قومی فرائض سر انجام دے رہا تھا۔
واحد بخش مری کے شہادت نے اسد مری کے قومی فلسفے کو وقت سے پہلے عملی میدان کے کسوٹی میں لا کھڑا کیا یہی سے اسد مری کے عظیم قومی سوچ نے قومی تحریک کے عملی میدان میں اپنا ایک الگ مقام ثابت کیا وہ اپنے ہر کام کو اتنے لگن سے کرتا رہا کہ ان کے نزدیکی سنگت کہا کرتے تھے کے اسد اور کام ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں سیاست سے گہرا لگاؤ کا وجہ شہید غلام محمد بلوچ جیسے شخصیات کے قریب رہ کر ہوا شہید غلام محمد بلوچ کراچی میں اکثر سیمیناروں میں بلوچ قومی تشخص اور آزاد بلوچ ریاست کی ترجمانی کرتے ہوئے نوجوان نسل کو اپنے قومی فکر سے آشناس کرتے اور ان کے جذبات کو صحیح راہ پر قائل کرنے کی انتھک کوشش میں لگے رہے۔ جب شہید غلام محمد بلوچ کراچی میں تھے تو شہید اسد اکثر و بیشتر کسی نہ کسی کام کے معاملے میں ان سے ملنے جاتے اسی بنا پر اسد اور شہید غلام محمد بلوچ میں کافی اچھی دوستی ہوئی۔ وہ دن آج بھی مجھے یاد ہے ایک بار شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے آبائی علاقہ سے کراچی آ رہے تھے تو انہوں نے شہید اسد مری کے لیے اپنے علاقی سوغات کجھور لائے تھے اسد نے کہا تھا میں جب بس اڈے پر انھیں لینے گیا تو وہ اپنے ہاتھوں میں ایک وزن دار تھیلہ پکڑے ہوئے تھے اور میرے طرف مسکراتے ہوئے مجھے وہ تھیلا پکڑا دیا لو آپ کے لیے مکران کا قومی سوغات کجھور لایا ہوں۔
اسد کبھی آرام نہیں کرتا وہ مسلسل اپنے قومی جہد میں مگن رہتے وہ ایک لمحہ یہاں تو دوسرا لمحہ وہاں کبھی اس شہر میں تو کبھی اس شہر میں وہ اپنے مخلصی اور انتھک محنت سے نظریاتی سنگتوں کا چہیتا تھا اور اسی بنا پر دشمن کے نگاہوں میں بھی وہ سرفہرست آ گیا تھا۔ مگر اسد بےخوف ہو کر نڈر رہتا وہ اپنے قومی فرائض سے کمپرومائز نہیں کرتا اب دشمن کے پاس اسد مری کو روکنے کا کوئی امکان باقی نہ تھا اسے شہید کرنے کے سوا دشمن اپنے قاتل ریاستی اداروں میں منصوبہ بندی کر رہے تھے اور دوسری طرف اسد مری اپنے عظیم قومی سوچ کو مزید تیزی کے ساتھ اپنے حقیقی منزل کی جانب گامزن تھے۔
27 دسمبر کو سنگت کی طرف سے پیغام آیا کہ کوئٹہ جانا ہے تنظیمی کام کے سلسلے میں بس اگلی صبح شہید اسد مری اپنے سفر کے تیاری میں لگ گیا.
یہ 28 دسمبر کی سرد صبح تھا اسد مری اپنے کمرے میں کوئٹہ جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا یہ کراچی کی گلیاں ہیں سورج کے نکلنے کے ساتھ ساتھ شور و غل شروع ہوتا ہے میں بھی گلی میں کھیلنے کو نکلا اس دوران اسد تیار ہوا میں اپنے کھیل میں مصروف رہا کہ سامنے سے اسد آیا اور کچھ کہے بغیر ایک خاموش مسکراہٹ سے الوداع ہوا میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ مسکراہٹ آخری الوداعی ہے بس آج بھی وہ مسکراتا چہرہ پرکشش آنکھوں میں میرے دل و دماغ میں اس قدر عکس بند ہوا جیسے وہ میرے وجود کے دائمی حصہ ہے شاید انسان اپنے محبت کے احساس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا شاید وہ الفاظ ہی نہیں جو اس کے بارے میں میرے محبت کو بیان کر سکیں اپنے بھائی کو آخری بار دیکھنا مجھے علم نہیں تھا کہ شاید زندگی میں دوبارہ کبھی نہ مل سکیں وہ اپنے محبوب وطن کے آغوش میں ہمیشہ کے لئے اس کی آغوش میں آرام سے سونے کے لئے خوشی و بے چینی کے عالم میں جارہا تھا وہ 29 دسمبر کو شال کے دامن کوہ چلتن کے برف پوش پہاڑوں کے درمیان نیوکاہان پہنچا اور صبح سویرے ایک دوست کے ہاں چائے پیا دشمن کو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ اسد آج کوئٹہ آرہا ہے وہ رات کو ہی نیو کاہان ہزار گنجی میں اسی تاک میں بیٹھا تھا وہ اپنے تنظیمی مشن پر اپنے فکری سنگت کے گھر سے نکلے اسد مری سنگت کے ساتھ کچھ ہی مسافت کی دوری ہی میں گیا تھا کہ سامنے سے ہتھیار بند دشمن نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور اسد مری کو 29 دسمبر 2006 کو نیو کاہان کوئٹہ میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے موقع پر شہید کیا۔
قاسم مری عرف اسد مری جو اپنے مادر وطن پر قربان ہونے والا کم عمر مگر قومی فکر سے سرشار اور کردار میں نمایاں حیثیت کا مالک تھا۔شہید اسد مری وہ پہلے شہید ہے جنھیں وادی شال کوہ چلتن کے دامن میں سپردِ خاک کیا گیا اور اسد مری پہلے وہ خوش قسمت فرزند بھی ہیں جن کو سب سے پہلے آزاد بلوچستان کی پرچم کا اعزاز دیا گیا ہے۔
اسد مری بلوچستان کی جدوجہد آزادی کے ایک سرگرم رکن تھے اور فکری طور پر ایک پختہ نظریاتی اور سنجیدہ کارکن کی حیثیت سے انھوں نے بلوچ قومی تحریک میں اپنا قومی فرض بخوبی سرانجام دیا.
ہم ہمیشہ ایسے نڈر اور بہادر وطن کے فرزندوں کو
سرخ سلام پیش کرتے ہے۔
تحریر: جی ایم بلوچ