کراچی(ہمگام نیوز)بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4564 دن ہوگئے-
آج اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے آرگنائزر بانک آمنہ بلوچ، ڈپٹی آرگنائزر عبدالواب بلوچ، بلوچ ہیومن رائٹس کارکن بانک ماہ گنج بلوچ اور سیاسی سماجی کارکن میر سہیل بلوج نے اظہار یکجتی کی وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کو آگ اور خون کا گھر بنانے والی ریاستی طاقت آۓ روز نت نئے انسانی المیوں اور جبراستبداد کے بیمانہ مظاہر سامنے لارہی ہے وہ تمام علاقے بلوچ قوم کی گہری اور وسیع سماجی بنیاد ین ہیں مقتدرہ ریاستی قوتوں کی جارحانہ کاروائیوں اور مختلف ساز شوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنائے جارہے ہیں فورسز اور خفیہ اداروں کے آپریشن اور بلوچ نوجوانوں طلبا سیاسی سماجی کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ماورائے عدالت اغوا نماجیری گمشدگیوں اور لاپتہ بلوچوں کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی روز کا محمول بن چکا ہے مگر حکمران قوتیں ان زمینی نا قابل تردید حقائق کو کسی کی ذہنی اختراع فرار دے کر بلوچستان میں جاری فورسز کے آپریشن سے مکمل انکارکررہی ہیں لیکن فوجی کارروائیوں سے انکار کے دعوؤں کی ایک اور نفی گزشتہ ماہ بولان اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فورسز کے آپریشن سے مکمل انکار ہی ہیں جوپوری دنیا کو نظرآرہی ہیں اس دوران فورسز نے گن شپ
ہیلی کاپٹروں اور بھاری فوجی سازوسامان اور کشیرنفری کے ساتھ آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں مقامی آبادی کوشدید جانی مالی نقصان پنچا متعدد عام عام بلوچ شہید وزخمی ہوۓ اور بڑی تعداد کو حراست میں لے کر جبری طور غائب کردیاگیا اس بے رحمانہ آپریشن کو جواز فرام کرنے کیلۓ سرکار نے دعوی کیا کہ شہید اور زخمی اور لاپتہ کیلۓ جانے والے بلوچ دہشت گرد تھے ۔