سندھ(ہمگام نیوز) سندھ کے نامور تاریخ نویس اور مصنف عطا محمد بھنبھرو کے فرزند اور جیے سندھ متحدہ محاذ کے رہنما راجہ داہر کی مبینہ جبری گمشدگی کا واقعہ پیش آیا ہے۔
پولیس کو شبہ ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔
عطا محمد بھنبھرو سندھ کی تاریخ کے موضوع پر 40 سے زائد کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں۔ انھوں نے سنہ 2012 میں صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کردیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا راجہ داہر گاؤں میں زمینیں سنبھالتا ہے اور چار جون کی شب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے گاؤں بچل بھنبھرو کا محاصرہ کر کے ان بیٹے کو حراست میں لے لیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
عطا محمد بھنبھرو کا دعویٰ ہے کہ ان کا بیٹا کبھی مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہیں رہا بلکہ وہ ایک سنجیدہ قوم پرست سیاسی کارکن ہے اور اس پر کوئی مقدمہ بھی درج نہیں۔
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کے نوجوان بیٹے کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا جائے گا یا تشدد میں ہلاک کرکے مسخ شدہ لاش پھینک دی جائے گی جیسے اس سے پہلے بھی قوم پرست کارکنوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان حکومت نے جیے سندھ متحدہ محاذ کو کالعدم قرار دیا ہے اور تنظیم کا سربراہ شفیع برفت پولیس کو مطلوب انتہائی ملزمان میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر جیے سندھ متحدہ محاذ کے چھ لاپتہ کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ ان ہی دنوں میں ایک زخمی الہ ودھایو مہر کو سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ کراچی سول ہپستال سے لے گئے تھے جو تاحال لاپتہ ہے۔ اسی طرح کملیش کمار نامی طالب علم کا بھی کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔
ایس پی خیرپور ساجد کھوکھر کا کہنا ہے کہ راجہ داہر کی گمشدگی کے حوالے سے ان کے والدین نے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ سیٹھارجا کے علاقے میں ریلوے ٹریک سے ایک بم برآمد کیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس الزام میں راجہ داہر کو تحویل میں لیا ہو لیکن وہ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ایس پی ساجد کھوکھر کا کہنا تھا کہ سنہ 2007 میں بھی اسی نوعیت کے الزام میں راجہ داہر کی گرفتاری عمل میں آئی تھی لیکن بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔ بقول ان کے راجہ داہر کا تعلق جیے سندھ متحدہ محاذ شفیع برفت گروپ سے ہے جو ریلوے لائنوں پر دھماکوں میں ملوث رہا ہے۔
دوسری جانب جیے سندہ متحدہ محاذ کے جنرل سیکریٹری سجاد شر کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے 30 اگست کو ’سندھ آزادی چاہتا ہے‘ کے نام سے حیدرآباد میں مارچ کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد ریلوے لائنوں پر دھماکوں کو جواز بنا کر ان کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ۔
سجاد شر کے مطابق راجہ داہر کے علاوہ خیرپور سے ہی ان کے بزرگ چچا قادر بخش، کزن نثار شر، حیدر آباد سے جمی تنیو اور عرفان جمالی نامی کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن کا تاحال کوئی پتہ چل نہیں سکا۔
جیے سندھ متحدہ محاذ کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے بارے میں شفیع برفت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ قومی آزادی کو سندھی قوم کی تقدیر سمجھتے ہیں اس لیے ریاستی اداروں کوئی بھی رویہ روا رکھیں، وہ اپنی منزل کی طرف قدم اٹھاتے رہیں گے۔
شفیع برفت کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ صوبائی حکومت کو بھی ریاستی اداروں کے مظالم میں برابر کا شریک سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب سندھ میں ادیبوں اور مصنفوں کی تنظیم سندھی ادبی سنگت نے بھی عطا محمد بھنبھرو کے بیٹے کی جبری گشمدگی کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اگر راجہ داہر کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کیا جائے۔