دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeخبریںتابوت لڑتا ہے تحریر ــ حاجی...

تابوت لڑتا ہے تحریر ــ حاجی حیدر بلوچ

شاہ محمد مری کے بارے میں بعض حلقوں میں اب تک کی سب سے بڑی تنقید یہ کی گئی ہے کہ وہ مختلف موضوعات پر 100 سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں لیکن بابا مری ان کے قلم کا حصہ کیوں نہیں بن سکے ؟ آج سے ٹھیک 1 سال قبل شاہ محمد مری سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا کیا “بابا مری” پر لکھنا اتنا آسان ہے؟ وہ تو ایک مزاحمت کا نام ہے، وہ ایک تاریخ ہیں۔ کیا میری بس کی بات ہے اس پر لکھنا۔ بلاشبہ بابا مری پر لکھنا آسان کام تو نہیں لیکن یہ کام تو صرف شاہ محمد مری ہی کرسکتے ہیں۔

نوجوانوں کی اکثریت کی تنقید، گلے شکوے نے شاہ محمد مری کو یہ مجبور کر دیا بلاآخر پچھلے سال شاہ محمد مری نے “عشاق کے قافلے” کے مداعوں کیلئے بابا مری پے لکھنے والے اپنی کتاب

“The coffin fights back ”

نام اعلان کرنا پڑا۔

 

البتہ جب موضوع بابا مری ہے مشکل تو ہوتا ہے نہ اسکو بیان کرنا آخر کیوں نہ ہو وہ تو مزاحمت کا پیامبر ہے۔ ریاست نے انہیں مختلف القابات سے پکارا ترقی مخالف سردار اور کبھی قبائلی جب کوئی ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے علاقے میں تعلیم نہیں ہے، غربت ہے، اور دوسری طرف آپ شعور لانے کے دعوے کررہے ہیں۔لہذا آپ ترقی کے خلاف کیوں ہیں تو بابا مری کیا خوبصورت جواب دیتے ہیں کہ آپ کے ہاں ترقی کیا ہے؟ ترقی کیسے کہتے ہے؟ ترقی کا کیا مفہوم ہے؟ کیا ان اسکولوں میں آزادی پڑھایا جاتا ہے؟وہ ہمیں غلام بنا رہے ہیں۔ میں نے تو مزاحمت کا اعلان کردیا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے جاکر پاک سٹڈی پڑھنی چاہیے۔ اسی لیے ریاست نے بابا مری کو ” ترقی مخالف سردار”قرار دیا۔ لہذا یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضروت ہے کہ جب بھی ریاست بلوچستان میں “سردار” کے نام سے محرومی کی وجہ بتاتی ہے تو اصل میں سردار سے مراد بابا مری ہی ہوتا ہے کیونکہ ماسوائے دیگر دو تین سرداروں کے باقی تو سب سے زیادہ وفادار ریاست کیلئے اس کے اپنے پروجیکٹیڈ سرادر ہی رہے ہیں۔

 

بابا مری ھیگلین فلسفی کیطرح اور اٹیلین مارکسسٹ گرامشی کیطرح تاریخ سے واقف تھے اسی لیے بابا مری نہ صرف نیشنلزم کی بات کرتے تھے بلکہ اسکے سامنے پوری نیشنلزم کی تاریخ پڑی تھی وہ ھیگل کی طرح فطرت کے اس عمل کو بھی مانتے تھے تو وہ کہتا تھا کہ آج میں نیشنلسٹ ہوں لیکن آزادی کے بعد سوشلسٹ کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ غلامی کو مٹانے اور اس ظلم سے نجات کیلئے نیشنلزم کا ہونا ضروری ہے وہ نہ صرف زبانی نیشنلزم کے دعویدار تھے بلکہ وہ اس میں عملی طور جیت بھی گئے۔

 

انہوں نے بلوچستان میں اس جبر کا فلسفیانہ تجربہ کیا تھا اس لیے وہ الفاظ کے چناو سے واقف تھے آج اس کا ہر لفظ مزاحمت کا راستہ دکھا رہا ہے بلوچ قوم کے نوجوانوں کیلئے وہ مکمل مزاحمت کی علامت تھے۔ جب تہتر کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کردیتی ہے تو ریاست محکوم عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہیںکہ آپکا اصل دشمن ریاست نہیں بلکہ سردار ہے جو ترقی کے راہ میں رکاوٹ ہے۔ جب کوئی صحافی یہ بات بابا مری سے پوچھتے ہیں تو وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہیں کیا جو ہم ترقی دینے سے انکاری ہیں۔ ہم سے تو زیادہ عام پنجابیوں کے پاس دولت ہے یہ تو نیو کالونیل لیگسی کی پروپیگنڈہ ٹول ہے یہ ڈھونگ رچانا سردار ترقی کیخلاف کے ہے محض بکواس ہیں۔

 

ہم نے صبر و برداشت و بہادری کی افسانوی داستانیں ہی سنی ہیں لیکن آپ اس عظیم شخصیت کے صبر و برداشت، استقامت، دلیری اور حوصلے کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں جب بابا مری سے ان کے شہید بیٹے بالاچ مری کے شہادت ہونے کا درد پوچھتے ہیں وہ کہتے ہیکہ درد تو ہے لیکن سب سے بڑا درد قوم کی غلامی ہے اسلیئے تو بابا مری جب کابل سے واپس آتے ہیں تو لوگ انکا استقبال پھولوں سے کرتے ہیں اور اسی جذبے نے بابا مری کو چے اور ماو جیسے نقلابی لیڈر کے مقام تک پہنچایا بقول وسعت اللہ خان لکھتے ہیں کہ جب کوئی انقلابی لیڈر جیت کر واپس آتا ہے تو وہ ماو، کاسترو اور چے بن جاتا ہے، لیکن جب وہ ہارتا ہے اور واپس آتا ہے تو وہ خیر بخش مری بن جاتا ہے یہ جملہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک تاریخ ہیں جو کہ ہم سمجھتے ہیں جنگ ہاری نہیں، بلکہ جنگ جاری ہے۔

 

ریاست کو نہ صرف بابا مری کے زندہ ہونے سے خطرہ تھا بلکہ اسکی سب سے بڑی کوشش تھی کی ان کی لاش کو تدفین ہی نہ کیا جائے لیکن بقول ایک بلوچ لکھاری یہ کھنکتی چوڑیوں کی آواز بزدلی نہیں بلکہ بہادری کی علامت ہے عورتوں کی مزاحمت کیوجہ سے بابا مری کو شال میں سپرد خاک کیا گیا۔ اور اسی طرح قوم انہیں ہمیشہ مزاحمت کے پیغمبر کے طور یاد کرتی ہے۔

(جاری )

یہ بھی پڑھیں

فیچرز