شنبه, سپتمبر 28, 2024
Homeخبریںتشدد کے متاثرین کی حمایت کے عالمی دن کی مناسبت سے فری...

تشدد کے متاثرین کی حمایت کے عالمی دن کی مناسبت سے فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے جرمنی اور برطانیہ میں احتجاج کیا گیا

 

ڈوسلڈڈورف/ لندن(ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ جرمنی اور برطانیہ برانچز کی جانب سے تشدد کے متاثرین کی حمایت کے عالمی دن کی مناسبت سے جرمنی کے شہر ڈوسلڈڈورف اور برطانیہ کے شہر لندن میں احتجاج کیاگیا۔ احتجاج کا مقصد قابض پاکستان اور ایران کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان میں تشدد کے حوالے سے یورپ اور خاص طور پر جرمنی اور برطانیہ کی عوام کو آگاہ کرنا تھا. جرمنی میں یہ احتجاج کل بروز ہفتہ مقامی وقت کے مطابق سہ پہر 3 بجے ڈوسلڈورف کے مصروف مقام آلٹ اِشٹڈ کے مقام پر منعقد ہوا اور برطانیہ میں آج 2 بجے لندن میں وزیر آعظم کے ہاوس کے سامنے منعقد ہوا۔

فری بلوچستان موومنٹ نے میڈیا کو جاری تفصیلی اعلامیے میں کہا کہ احتجاج کا مقصد مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان و ایران کی جانب سے جاری جبر و تشدد کے حوالے سے یورپ خاص طور پر جرمنی اور برطانیہ کے عوام کو آگاہی فراہم کرنا تھا۔

جرمنی میں مظاہرین نے منعقدہ مہم میں ایک خاکے کی صورت میں اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ خاکے میں بلوچستان ایک زخمی اور خون آلود عورت کے طور پر دکھایا گیا جس نے متحدہ بلوچستان کا نقشہ ہاتھ میں تھاما ہوا تھا جس کو بلوچوں کی ماں سے تشبیح دی گئی تھی۔ بلوچستان کے تشدد سے متعلق ہونے والے واقعات کو آشکار کرانے کے لئے بلوچستان سے سُرخ رنگ کی رسیاں نکالی گئی تھیں جن سے مراد خون کی تشہیر تھی کو ساتھ میں بٹھائے گئے لوگوں نے تھام رکھا تھا جنہوں نے مختلف موضوعات کے حوالے سے پلے کارڈ تھامے ہوئے تھے جن پر تصویروں کی مدد سے اس بیان کئے گئے مسئلے کی وضاحت کی گئی تھی جس کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ بلوچستان کو تشدد سے متعلق ان خون آلود مسائل نے جکڑ لیا ہے، ان کو مختلف خاکوں اور تصویروں کی مدد سے دکھایا گیا تھا۔ جن مسائل کو زیادہ ترجیح حاصل تھی ان میں تشدد، جبری گمشدگیاں، مسخ شُدہ لاشیں، جعلی مقابلوں میں جبری گُمشدگی کے شکار افراد کو قتل کرنا، فوجی جارحیت، اجتماعی پھانسیاں، اجتماعی قبریں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے مختلف دیگر بینر اور پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے جن پر مختلف نعرے اور پیغامات درج تھے۔

پورے مظاہرے میں نعرے بازی کرنے کے بجائے اس حوالے سے اسپیکر پر جرمن زبان میں تسلسل کے ساتھ ایک مکالہ پڑھا گیا جس سے یہ مقصود تھا کہ تمام لوگوں تک بلوچستان کے مسائل تفصیل اور وضاحت کے ساتھ پہنچ جائیں اور لوگوں کو بہتر طریقے سے بلوچستان کے مسائل سے آگاہی مل سکے۔ مظاہرے کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں بلوچستان کی تقسیم، جبری قبضے،پاکستان و ایران کی جانب سے بلوچ عوام پر پُرتشدد مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے معلوماتی پمفلیٹ تقسیم کئے گئے۔ مظاہرے میں حسب سابق مختلف زبانوں میں تقاریر شامل کی گئیں تھیں۔ تقاریر انگریزی، جرمن، بلوچی، فارسی اور عربی میں کی گئیں تاکہ بلوچستان کا پیغام وسیع تر سامعین تک پہنچایا جاسکے۔

مظاہرین سے ماہگونگ بلوچ، بانُک سماء بلوچ، بہزات بلوچ، خُداداد بلوچ اور محمد بخش راجی بلوچ نے خطاب کیا۔
ادھر لندن میں مظاہریں نے وزیرآعظم ہاوس کے سامنے احتجاج کیا۔ احتجاج میں بی آر پی کے کارکنوں کے علاوہ ایران کے زیر قبضہ الآحواز کے کارکنوں نے بھی شرکت کئ۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ہلے کارڈ اور بینرز اٹھائے تھے جن پہ پاکستان اور ایران کے ہاتھوں بلوچستان پر قبضہ، بلوچوں کی نسل کشی، جبری گمشدگی اور انسانی حقوق کی پامالی کے الفاظ درج تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے برطانوی عوام میں پمپلٹس بھی تقسیم کرکے ان کو بلوچستان میں پاکستان اور ایران کی طرف سے کی گئ ظلم و ستم کے بارے میں آگائ دی۔
مقررین نے اپنے خطبات میں بلوچستان کی تاریخ، برطانیہ کے بلوچ وطن پر قبضے، بلوچستان کی تقسیم اور پھر ایران اور پاکستان کے بلوچستان پر قبضے کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے مزید کہا کہ اس وقت بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے جس کو دبانے کے لئے پاکستان اور ایران بلوچ قوم پر مظالم کی تمام حدیں پار کررہے ہیں تاکہ بلوچوں کو خوف زدہ کرکے ان کی تحریک آزادی سے دور کیا جاسکے لیکن اس تمام جبر کے باوجود بلوچ مستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں جو کئی دہائیوں سے جاری ہے مگر افسوس اور تشویش اس بات پر ہے کہ یہ تمام مظالم دنیا کی آنکھوں سے اوجھل یا پھر دنیا نے ایک پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو پاکستان اور ایران کو اپنے مظالم جاری رکھنے اور بڑھانے میں ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔

مقررین نے مغرب اور دنیا کی یوکرین پر روسی جارحیت کے حوالے سے رد عمل کو سراہا اور اس کی تعریف کی مگر بلوچستان کے حوالے سے مغرب کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ایک طرف مغرب اور خاص طور پر جرمنی یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف نہ صرف روس پر معاشی پابندیاں عائد کررہا ہے بلکہ ان ممالک پر بھی معاشی پابندیاں لگا کر ان کے لئے بھی زمین تنگ کی جارہی ہے جو روس کے ساتھ تجارت یا دیگر معاشی سرگرمیاں کررہے ہیں جبکہ پاکستان پر پابندیاں تو دور کی بات ان کو معاشی اور اقتصادی امداد کے ساتھ ساتھ فوجی امداد بھی فراہم کررہے ہیں اور بد قسمتی سے وہ امداد بھی بلوچ عوام کے خلاف ان کی نسل کُشی کرنے کے لئے استعمال ہورہا ہے۔ مقررین نے یورپ اور خاص طور پر جرمنی کی عوام سے سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ جو ٹیکس آپ اپنی حکومت کو ادا کرتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ معاشی و اقتصادی اور فوجی امداد بن کر پاکستان جیسے مُلک کو مل جاتا ہے جس کو پھر پاکستان بلوچوں کی نسل کُشی کے لئے استعمال کرتا ہے جو آپ کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے اور آپ لوگوں کو اس پر آواز اٹھا کر ظلم کے شکار بلوچ عوام کی آواز بننا چاہئیے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز