دوشنبه, اکتوبر 14, 2024
Homeخبریںاسرائیل تہران میں آزادی سے اپنی کارروائیاں کرتا ہے: رپورٹ

اسرائیل تہران میں آزادی سے اپنی کارروائیاں کرتا ہے: رپورٹ

لندن (ہمگام نیوز) برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے ایک رپورٹ میں اسرائیل کی ایران میں دراندازی اور دارالحکومت تہران میں کارروائیاں کرنے کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالی ہے۔
اخبار نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ایک ایران کے اصلاح پسند سیاست دان کے حوالے سے لکھا ہے ’’کہ اسرائیل، تہران میں آزادی سے اپنی کارروائیاں کر رہا ہے۔” انہی ذرائع نے مزید کہا کہ اسرائیل سے منسوب حالیہ حملوں اور ایرانی سرزمین پر کی جانے والی کارروائیوں کے بعد “اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی اتھل پھتل کی جاتی رہی ہے”۔

ایران کے اندر اسرائیلی نظام آزادانہ کام کر رہا ہے

ذرائع، جن کی شناخت فنانشل ٹائمز نے ظاہر نہیں کی، نے تہران میں اخبار کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسرائیل نے تہران میں ایک وسیع نظام قائم کیا ہے جو اسے پوری آزادی کے ساتھ آپریشن کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اسرائیل، ایران کی اس پروپیگنڈے کو نشانہ بنا رہا ہے جس میں ایران یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ایک محفوظ ملک ہے۔

حالیہ مہینوں میں جوہری، میزائل اور عسکری شعبوں میں کام کرنے والے ایرانی سائنسدانوں اور افسروں کی ہلاکتوں کے واقعات اپنے عروج کو پہنچ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ایران میں مشتبہ اموات اور تخریب کاری کی کارروائیوں کا سلسلہ اسرائیل سے منسوب کیا گیا ہے، جن میں قدس فورس کے دو افسروں کی ہلاکت، ایرانی پاسداران انقلاب کی بیرونی مداخلت، میزائل اور ڈرون میں کام کرنے والے کچھ نوجوان سائنسدان شامل ہیں جنہیں کامیابی سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔
اس سال مئی میں کارروائیوں میں شدت آئی لیکن اگلے ہفتوں میں ان میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ حکام اور اسرائیلی میڈیا نے جو عموماً ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کیے بغیر رپورٹس شائع کرتے ہیں، گذشتہ ماہ کے دوران ایران میں اس نوعیت کے کسی نئے آپریشن کا ذکر نہیں کیا۔
ایک سال تک اسرائیل کے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے والے نفتالی بینیٹ نے ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا جسے انہوں نے “ایران میں آکٹوپس کے سر کو مارنا” کا نام دیا تھا لیکن بینیٹ کی سربراہی میں حکومتی اتحاد کے خاتمے کے بعد ان کی جگہ گذشتہ ماہ یائر لاپیڈ نے اقتدار ہاتھ میں لیا۔
عبوری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے والے لاپیڈ کی کابینہ میں نفتالی بینیٹ اب بھی شامل ہیں اور “ایران” کے امور کے ذمہ دار ہیں، حالانکہ عبرانی میڈیا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ حکومت میں ان کا کردار اور اثر و رسوخ بہت کم ہو گیا ہے۔

‘اسرائیل نے خاطر خواہ کام نہیں کیا’

تاہم اسرائیلی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر ایال ہولاتا نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ اسرائیل نے گذشتہ ایک سال کے دوران ایران میں “کافی کام نہیں کیا”۔
یہ بیانات جو بائیڈن کے دورہ اسرائیل کے موقع پر سامنے آئے جس کے بعد سینئیر اسرائیلی حکام نے بار ہا امریکی صدر کو ایران کے خلاف ’فوجی آپشن‘ ٹیبل کرنے کی تجویز دی لیکن ہر بار امریکی صدر کا ردعمل ’سفارت کاری‘ ہی ترجیحی حل رہا۔
اسرائیل سے منسوب حملوں اور ترکی میں اسرائیلی شہریوں کو نقصان پہنچانے کے بارے میں ایران کو اس کے سخت واننگز کے تناظر میں تہران نے ایرانی پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس تنظیم کے سربراہ حسی تائب کو اس عہدے پر 13 سال گزارنے کے بعد برطرف کر دیا تھا۔
پاسداران انقلاب نے حفاظتی خلاء کو پر کرنے کے لیے سلامتی کے ذمہ دار اداروں میں متعدد تبدیلیاں کیں، جن میں حکومت کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی حفاظتی فورسز کے کمانڈر کو تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق ایرانی رجیم میں موجود بنیاد پرست عناصر بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اسرائیل سے منسوب کارروائیوں کے حوالے سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ اخبار نے اس سلسلے میں ایرانی حکام کے حالیہ بیانات جیسے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر محمد علی جعفری کا حوالہ دیا ہے۔
اخبار نے لکھا کہ حالیہ مہینوں میں اپنے ملک پر حملوں کی متعدد رپورٹوں کی وجہ سے کچھ عام ایرانی بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

‘اندر سے نظام کا خاتمہ’

اخبار نے تہران کے بازار میں “علی” نامی ایک تاجر کے حوالے سے لکھا ہے جس کی مکمل شناخت ظاہر نہیں کی گئی کہ اسرائیلیوں کو معلومات کون دیتا ہے؟۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل ایرانی نظام کے ندر گھس گی ہے۔ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتےلیکن کون جانتا ہے؟ ، شاید یہ نظام تباہی کے مراحل میں ہے۔ اندر سے یہ سوویت یونین جیسا ہے۔
اسرائیل سے منسوب حملے جن میں ایران کے بنیادی ڈھانچے، اداروں، افراد اور دیگر اہداف کو نشانہ بنایا گیا وہ اس پالیسی کا حصہ دکھائی دیتے ہیں جسے اسرائیل “جنگوں کے درمیان جنگ” کہتا ہے اور جس کی لاگت کا تخمینہ ایک حقیقی بڑی جنگ سے کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز