کوئٹہ ( ہمگام نیوز) ویب ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق ہماری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں مجھ پر جان لیوا حملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ میرے شوہر شہیدرضاجہانگیر ایک طلباء رہنماء تھے جنھیں ریاستی عناصر نے شہید کیا تھا۔یہ بات یہاں شال پریس کلب میں بی ایس او آزاد کے شہید رہنماء رضاجہانگیر کی بیوہ زہرہ رضا جہانگیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کی۔
زہرہ رضا جہانگیر تیرتج ضلع آواران کی رہائشی اور بلوچستان یونیورسٹی میں ایل فل کی طالبہ اور دو یتیم بچوں کی ماں ہیں۔انھوں نے گذشتہ دنوں خود پر قاتلانہ حملے کے پس منظر میں یہ پریس کانفرنس کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ میری اور میرے بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات ہیں حملہ آور مجھ پر دوبارہ بھی حملہ کرسکتے ہیں۔
انھوں نے اپنے اور اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے اور میرے بچوں کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار ریاست اور اس کے ادارے ہوں گے۔
انھوں نے کہا کچھ دن قبل بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے مجھے فائرنگ کرکے نشانہ بنایا گیا لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے محفوظ رکھا۔ میں ایک بات بلکل واضح کرنا چاہتی ہو کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔مجھ پر جان لیوا حملہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ میرے شوہر شہید رضا جہانگیر ایک طلباء رہنما تھے، جس کو نو سال قبل ضلع کیچ کے علاقے آبسر تربت میں شہید کیا گیا اور اس واقعے کے ایک سال بعد میرے سسر بختیار بلوچ کو دیگر چھ افراد کے ہمراہ عبادت گاہ میں فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔یہ تمام واقعات حادثات نہیں بلکہ ان تمام واقعات میں ریاستی ادارے اور ان کے تشکیل کردہ گروہ ملوث ہیں۔
’’ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی بلوچ خاتون نہیں ہوں کہ مجھے نشانہ بنایا گیا بلکہ مجھ سے پہلے بھی بلوچ خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اب بلوچ خواتین کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ خواتین کی گمشدگیاں اور قتل کے واقعات کئی عرصے سے بلوچستان میں رونما ہورہے ہیں اگر ایسے واقعات کا سدباب نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ مزید خواتین اجتماعی سزا سے متاثر ہوں گی۔‘‘
زہرہ رضا جہانگیر نے کہا میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر یہاں شال آئی تاکہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکوں اور ایک اچھے ماحول میں ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرسکوں لیکن یہاں بھی ہمیں سکون سے رہنے نہیں دیا جارہا ہے اور مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے مجھے اپنے زندگی کے حوالے سے شدید تحفظات لاحق ہیں کیونکہ یہ دوبارہ مجھ پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا میرے دو بیٹے ہیں جن میں ایک ساتویں جماعت جبکہ دوسرا بیٹا تیسری جماعت کا طالب علم ہے ان کی پڑھائی کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ رضا کی شہادت کے بعد ان کی کفالت اور تعلیم کی زمہ داری مجھ پر ہے. اگر مجھے کچھ ہوگیا تو ان کا ذمہ کون لے گا؟ اگر وہ آج مجھے پر قاتلانہ حملہ کر سکتے ہیں تو یہ کل میرے بچوں پر بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔میں تمام انسانی حقوق کے اداروں کو بتانا چاہتی ہو کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے. میرے شوہر، میرے سسر اور مجھ پر حملہ کرنے والے ریاستی ادارے اور ان کے تشکیل کردہ گروہ ہیں، اگر مجھے یا میرے بچوں کو کچھ ہوا تو اس کی زمہ داری ریاست کے اداروں پر عائد ہوگی۔