تہران ( ہمگام نیوز) تہران کے ایک سیکنڈری سکول کی طالبات کو اہلکاروں نے مارا پیٹا، جب انہوں نے خود کو کپڑوں کی تلاشی کے لیے پیش کرنے سے انکار کیا اور اپنے موبائل فون حوالے کر دیے۔
رائٹرز کے مطابق ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی گذشتہ روز سامنے آنے والی ویڈیوز سے اس واقعے کا انکشاف ہوا۔ سکیورٹی فورسز نے سکول کے سامنے جمع ہونے والے والدین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اتوار کے روز ہزاروں اساتذہ نے گزشتہ ہفتوں میں ہونے والی گرفتاریوں اور ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کلاس روم میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ گزشتہ ہفتوں میں ایرانی سکیورٹی فورسز نے خاص طور پر یونیورسٹی کے طلبہ اور سکول کے بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔
23 بچے مارے گئے
گزشتہ ہفتے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تصدیق کی تھی کہ مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 23 کم سن بچے مارے گئےہیں۔ ایران کی قومی مزاحمتی کونسل نے مظاہرین میں سے 400 سے زائد افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیاہے۔
مہسا کی موت سے مظاہروں کا آغاز
ایران میں مہسا امینی کی 16 ستمبر کو پولیس حراست میں موت کے بعد سے کئی مسائل پر غصے کی آگ بھڑک اٹھی ہے، جن میں ذاتی آزادیوں پر پابندیاں اور خواتین کے لباس سے متعلق سخت قوانین، ایرانیوں کو درپیش معاشی بحران، حکومت اور اس کے سیاسی ڈھانچے کے عام طور پر نافذ کردہ سخت قوانین شامل ہیں۔
ان مظاہروں میں خواتین نے بھرپور حصہ لیا اور مشہور گلوکاروں، کھلاڑیوں، اداکاروں اور یونیورسٹی اور سکول کے طلبہ نے بھی سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا ہے۔ دوسری طرف حکام نے اس تحریک پر پرتشدد ردعمل کا اظہار کیا اور کئی مقامات پر براہ راست فائرنگ کی۔ سینکڑوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔