کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نے خاران میں مارے گئے ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ گزشتہ شب ہمارے سرمچاروں نے خاران شہر میں واقع حاجی ابراہیم چنگیزی محلہ میں ڈیتھ سکواڈ کے اہم سرغنہ شیخ سلیم تگاپی کے ٹھکانے پر حملہ کرکے اسے تین دیگر کارندوں عبدالرازق، سیف اسلام اور ثناء اللہ سمیت ہلاک جبکہ دلشاد نامی ایک کارندے کو شدید زخمی کیا۔ حملے کے دوران ڈیتھ سکواڈ کے باقی کارندے ٹھکانہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
ترجمان نے کہا کہ اس حملے کی ذمہ داری ہماری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی قبول کرتی ہے۔
آزاد بلوچ کے مطابق شیخ سلیم تگاپی گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے بدنام زمانہ شفیق مینگل کے دستِ راست کے طور پر کام کررہا تھا۔ کوئٹہ، خاران، خضدار سمیت بلوچستان کے متعدد علاقوں میں پاکستانی فوج کے کہنے پر وہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی، ٹارگٹ کلنگ، دورانِ قید غیرانسانی تشدد سمیت متعدد نسل کش سرگرمیوں میں بطور کمانڈر کام کرتا تھا، اس کے علاوہ چوری، ڈکیتی، بتھہ، اغواء برائے تاوان اور کہیں سماج دشمن سرگرمیوں میں پیش پیش رہا ہے۔ گزشتہ کہیں سالوں سے خضدار کے علاقے توتک اور وڈھ میں قائم شفیق مینگل کے کیمپ میں رہ کر ڈیتھ سکواڈ کے متعدد نیٹورکس کی سربراہی کررہا تھا۔
بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے مزید کہا کہ علاوہ ازیں جہاد کے نام پر کہیں سادہ لوح اور کمسن نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں پنجاب میں ٹریننگ کیلئے بھیجا کرتا تھا۔جہاں پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس کے افسران نوجوانوں کی ذہن سازی و فوجی ٹریننگ دینے کے بعد انہیں بلوچستان میں قومی تحریک اور دوسرے ہمسائے ممالک کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شیخ سلیم گزشتہ 5 ماہ سے خاران اور گردونواح کے علاقوں میں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی ہمراہی میں نوجوانوں کے اغواء سمیت فوجی سرپرستی میں شریف اور نہتے لوگوں کو دھمکی دے کے ان کے زمینوں پر قبضہ کرنے میں ملوث تھا، اس کے علاوہ حق توار کے نام سے علاقے کے غریب تاجروں کو لیٹر بھیج کر بھتہ مانگ رہا تھا۔
بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ خاران سمیت مقبوضہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں ڈیتھ سکواڈ کا ہر کارندہ ہمارے نشانے پر ہے۔
واضح رہے کہ خاران اس وقت آزادی پسند تنظیم کی مسلح کاروائیوں اور اس کے ردعمل میں فوجی جبر اور تشدد کی وجہ سے انتہائی شورش زدہ ہے۔ جہاں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے اہمیت کے حامل متعدد حملے ہوچکے ہیں۔
بلخصوص گزشتہ ماہ بی ایل اے نے سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ محمد نور مسکانزئی کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس کی پاکستانی وزیرآعظم نے بھی مذمت کی تھی۔
بی ایل اے کے گزشتہ حملے کے بعد قابض فورسز کی جانب سے متعدد بے گناہ نوجوانوں کو جبراً حراست میں لیا جاچکا ہے جوکہ تاحال لاپتہ ہیں۔