دوحه ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ کپ کے موقع پر بھی ایران کے اندر جاری احتجاجی مظاہروں کا چرچا ہونے کی اس وقت صورت پیدا ہوگئے، جب رواں ورلڈ کپ میں ایران کے پہلے میچ سے پہلے ایرانی حکومت کے مخالفین نے خوب نعرے بازی کی۔ ایران کا یہ پہلا میچ برطانیہ کے ساتھ کھیلا گیا تھا۔
ایرانی اندرونی صورت حال کا عکس ایران کے ورلڈ کپ کے سلسلے میں میچ سے پہلے بھی نمایاں رہا تاہم ایسا لگا کہ جمعہ کے روز ایرانی حکومت کے حامی زیادہ منظم ہو کر سامنے آگئے ، سٹیڈیم سے باہر ایرانی حکومت کے حامیوں نے مظاہرین کی حمایت کرنے والوں کو خوفزدہ کیے رکھا۔
ایرانی مظاہرین کی حامی خواتین اس وقت سخت خوفزدہ ہوگئیں جب ایرانی حکومت کے حامیوں نے اپنے موبائل فونز سے ان کی ایرانی رجیم مخالف سرگرمیوں کی ویڈیوز بنائیں ، حتیٰ کہ غیر ملکی میڈیا کے ساتھ ان کی بات چیت کے دوران انہیں غصے سے دیکھا اور اونچی آواز میں ایران کے حق میں نعرہ بازی کرنا شروع کر دی۔
میچ سے پہلے سٹیڈیم سے باہر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایران رجیم کے مخالفین انقلاب سے پہلے کے دور کے ایرانی پرچم لے کر احمد بن علی سٹیڈیم میں داخل ہونا چاہتے تھے مگر ایران کے حکومتی حامی تماشائیوں نے ان سے یہ پرانے ایران کے پرچم چھین لیے۔
پرانے دور کے ایرانی پرچم بطور خاص لانے والے تماشائیوں نے ایسی شرٹس پہن رکھی تھیں جن پرمطالبات پر مبنی نعرے ‘ عورت ، زندگی اور آزادی کی صورت الفاظ تحریر تھے۔ ان الفاظ کے تحریر کیے جانے کا مطلب صاف تھا کہ وہ ایرانی حکومت کے مخالف اور مظاہرین کے حامی ہیں۔
ایرانی تماشائیوں کی چھوٹی ٹولیوں نے ایران کے حق میں بھی نعرے لگائے۔ وہ لوگ یہ نعرے اسطرح غصے اور جوش کے ساتھ لگارہے تھے کہ اس دوران غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دینے والی ایرانی خواتین خوفزدہ ہو گئیں۔ اور انہوں نے اپنے آپ کو ہراسگی کی حالت میں محسوس کیا۔
یہ سارا شور سٹیڈیم سے باہر سکیورٹی چیک پوئنٹ سے باہر باہر ہوتا رہا۔ مطاہرین کی حامی عورتیں مظاہرین کے حق میں نعرے لگاتیں جبکہ ایرانی حکومت کے حامی اسلامی جمہوریہ ایران کے نعرے لگاتے رہے۔
اس موقع پر ایران کی کئی خواتین تماشائی ان ایرانی تماشائیوں سے ڈر کر رہ گئیں جو ایران کے حق میں نعرےلگا رہے تھے اور ان خواتین کی ویڈیو بنارہے تھے۔
قطر میں رہنے والی وانیا نامی ایک 21 سالہ ایرانی لڑکی کا اس سلسلے میں کہنا تھا ‘میں نے جو منظر سٹیڈیم سے باہر دیکھا ہے اس کے بعد میں کبھی بھی ایران واپس جانے سے خوفزدہ ہو گئی ہوں۔’
اس کا کہنا تھا ‘ ایرانی حکومت کے حامی مجھ پر حملہ کر رہے تھے۔ جب میں میٹرو پر سٹیڈیم کی طرف آرہی تھی تو وہ سارا راستہ مجھے لعن طعن کر رہے تھے۔’ وانیا کے بقول جب وہ چل رہی تھی یا اپنے فون پر کسی سے بات کر رہی تھی تو اس دوران ایک ایرانی پرچم لہراتا ہوا اس کے پیچھے چلتا رہا۔
اسی طرح جمعہ کے روز بعض ایرانی تماشائیوں نے ایرانی مظاہرین کی حمایت میں نعرے لگائے۔ ایرانی کھلاڑی اپنے ملک کا ترانہ بجائے جانے کے وقت خاموش رہے۔
واضح رہے ایران میں بد امنی سولہ ستمبر سے جاری ہے جب مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت واقع ہوئی تھی۔ ایران میں یہ سلسلہ ابھی تک جارہی ہے۔