برلن ( ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ نے عالمی انسانی حقوق کے دن جرمنی کے شہر بون میں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔ احتجاجی مظاہرہ مشہور جرمن ذرائع ابلاغ کے ادارے ڈوئیچ ویلے کی مرکزی دفتر کے سامنے منعقد کیا گیا۔
مظاہرہ دوپہر 1:30 منٹ پر شروع ہوا جو شام 4:30 تک جاری رہا۔ مظاہرین نے انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔
مظاہرین سے واجہ محمد بخش راجی بلوچ، ابوبکر بلوچ، نوید بلوچ، حنیف بلوچ، عبدالواجد بلوچ، محمد فارس اور بیبگر بلوچ نے خطاب کیا۔
مظاہرین نے بلوچستان پر پاکستانی و ایرانی قبضے سے لیکر مختلف ادوار میں وہاں جاری مظالم و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان و ایران نے سب سے پہلے بلوچ عوام پر انسانی حقوق کی پائمالیوں ان کی زمین پر قبضہ کرکے ان کی آزادی ختم کرکے شروع کی جو آج کی تاریخ تک اُسی شدت سے جاری ہیں کیونکہ بلوچوں نے اپنی آزادی کھونے کے بعد اس کو دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی جس کو دبانے کے لئے دونوں ریاستیں طاقت کا استعمال کررہی ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ قبضہ گیر اپنی تاریخ سے ثابت کرتے ہیں کہ جب کبھی کہیں قبضے کے خلاف قومیں کھڑی ہوتی ہیں وہاں اس طرح کے مظالم کوئی انہونی شے نہیں مگر تعجب اس بات پر ہوتی ہے کہ انسانی حقوق و ذرائع ابلاغ کے ادارے اس تمام تر صورت حال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ بلوچستان میں ایک انسانی بحران جنم لے رہا ہے کیونکہ بلوچستان اس وقت صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار نہیں بلکہ وہاں پر ایک نسل کُشی جاری ہے جس کو روکنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ان اداروں کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس سے اب تک یہ ادارے لاتعلقی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں انسانی حقوق کی وضاحتیں کی ہیں جہاں پر انسان کی آزادی کو سب سے پہلی ترجیح حاصل ہے لیکن اس پہلے ترجیح کو بلوچستان میں سب سے ختم کیا گیا ہے۔ آزاد معاشروں میں آزادی اظہار رائے، آزادی انتخاب، آزادی روزگار اور دیگر چیزوں کو تو اہمیت حاصل ہوجاتی ہے اور ان پر بڑے بڑے رد عمل دیکھنے کو ملتے ہیں مگر بلوچستان میں انسانی زندگی کا خاتمہ، ان کو جبری گُمشدگی کا شکار بنانا تک وہ اہمیت و جگہ حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں جو ان کو ملنی چاہئیے ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر اور دنیا کے دیگر قوانین بلوچستان اور بلوچ سرزمین کی حدود میں آکر صرف کاغذوں کو سیاہ کرنے والے الفاظ رہ جاتے ہیں اور ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا جو ایک تشویشناک صورتحال ہے جس سے ہمارے قابضین کو ہم پر مزید مظالم کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور اگر یہ کردار اسی طرح جاری رہا تو تاریخ میں یہ ادارے مجرموں کی فہرست میں شامل ہونگے۔