ھمگام آرٹیکل

آرچن بلوچ

بلوچستان چونکہ ایک جنگی خطے میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس جنگ میں شامل دو فریقوں میں سے ایک فریق پاکستانی فوج ہے جس کی بلوچستان میں موجودہ کمانڈر جرنل آصف غفور ہیں جہنوں نے اپنے حالیہ گوادر دورے میں بلوچ عوام کو دھمکی دی ہے کہ آئندہ اگر کسی نے بلوچستان میں ہڑتال یا احتجاج کی تو اس کو اندر کردینگے یعنی جیل میں ڈال دیں گے۔ یاد رہے اسی جرنل نے، جب وہ آئی ایس پی آر کے ترجمان تھے، 2019 میں ایک پریس بریفنگ میں پشتون تحفظ مومنٹ کو کہا تھا کہ “جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے”۔ اس حوالے ہم نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر عالمی برادری کو بتایا تھا کہ پاکستان آرمی کھلم کھلا جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان پر قابض پنجابی فوجی حکمران انگریز کی دی ہوئی وراثتی طاقت کے زعم میں اتنے مبتلا ہیں کہ انہیں بلوچ اور پنجابی قومی ہمساھگی، قومی دوستی، قومی رضا و رغبت اور باہمی قومی احترام جیسے مثبت رویہ نظر نہیں آتے، بلکہ محض جنگی طاقت کی توازن پر یقین رکھتے ہیں، جن کے خیال میں بلوچ کمزور ہیں، اسلئے پنجابی کی طاقت کی مرکز پنڈی نے اس آصف غفور کو بلوچستان پر اس لیے مسلط کیا ہے کیوں کہ یہ ایک سفاک صفت جرنل ہے جو ماورا جنگی و اخلاقی قوانین پر یقین رکھتا ہے۔

 بلوچستان میں پاکستانی فوج کی روز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بلوچستان میں عدالتی نظام کی معطلی، ریڈکراس اور دوسرے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی بلوچستان تک رسائی پر پابندی جیسے رویے کھلم کھلا عالمی جنگی کنونشن اور قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں۔

 اس لیے بلوچ عوام کو چاہیے کہ وہ جنگی اخلاقیات کے بارے جنیوا کنونشنز، (ریت و روایات) کے بارے بنیادی معلومات سے خود کو آگاہ رکھیں۔ جنیوا کنونشنز جنگی اخلاقیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں سے بچنے کیلئے 1949 میں سوئٹزرلینڈ میں عالمی رہنماؤں نے جنیوا کنونشنز پر دستخط کیے۔ جنیوا کنونشنز کی توثیق 196 ممالک نے کی۔ پاکستان بھی جنیوا کنونشنز کے دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ اصل جنیوا کنونشن 1864 میں ICRC ریڈ کراس کا نشان قائم کرنے کے لیے اپنایا گیا تھا جو غیر جانبدار حیثیت اور طبی خدمات اور رضاکاروں کے تحفظ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ خاص طور پر قتل کرنا، لاشوں کو مسخ کرنا، تشدد کرنا، یرغمال بنانا، غیر منصفانہ مقدموں کی سماعت، ظالمانہ، اور ذلت آمیز سلوک سے منع کرتا ہے۔ اس کنونشن میں اس ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ زخمیوں، بیماروں اور تباہ شدہ آبی جہازوں کے مسافروں کو سپورٹ دینا اور ان کی دیکھ بھال کی جائے۔

جنگوں میں وہ جنگی جرائم کیا ہیں جہیں انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا گیا ہے۔ عسکری قوتوں کے ہا تھوں قتل، تباہی، غلامی، جلاوطنی، جنگ کے وقت میں بڑے پیمانے پر منظم عصمت دری، جنسی غلامی اور دیگر غیر انسانی اعمال، انسانیت کے خلاف کسی دوسرے جرم کو انجام دینے یا اس کے سلسلے میں سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کو جنگی جرائم کہا جاتا ہے۔

 جنیوا کنونشنز ریڈکراس ICRC کو تنازعہ میں شامل فریقین کو اپنی خدمات پیش کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریڈ کرسینٹ کا رایہ فیصلہ کن ہے۔ یعنی آپ کے حق میں یا خلاف رائے دے سکتا ہے کہ آپ کی حیثیت جائز ہے یا ناجائز!

بلوچستان میں جنگ کی دوسری فریق مختلف بلوچ عسکری قوتیں ہیں جن کے ہاتھوں دفاعی جنگ کے حالت میں کئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرزد ہوئی ہیں، جن کا انہوں نے کئی دفعہ اعتراف بھی کیا ہے۔ لیکن مختلف عسکری تنطیموں پر مشتمل بلوچ مزاحمت ریڈکراس کے تعین شدہ فوجی معیار پر نہیں اترتے۔ اس لیے بلوچستان تنازعہ میں ریڈکراس ICRC وجود نہیں رکھتا، اسکی وجہ شاید ان آزادی پسند عسکری تنظیموں کے الگ الگ حیثیت ہے جن کے بارے عالمی اداروں اور عالمی قوتوں کی ممکنہ رائے اپنی جگہ، خود بلوچ انٹلیجنشیا کو حیرانگی ہے کہ جب قوم ایک ہے سرزمین ایک ہے اور نظریہ بھی ایک، تو بلوچ قوم کی عسکری قوت ٹکڑوں میں بٹا کیوں ہے؟