کابل(ویب ڈیسک) افغان صدر اشرف غنی نے پیر کے روز دارالحکومت کابل میں حالیہ دہشت گرد حملوں میں کم از کم 56 افراد ہلاک ہونے کے بعد پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
غنی نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ‘پچھلے کچھ دنوں کے دوران پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں موجود بم بنانے والی فیکٹریاں اور ٹریننگ کیمپ ابھی بھی اتنے ہی سرگرم ہیں جتنے پہلے تھے۔’
افغان صدر نے کہا کہ ‘ہمیں امن کی امید تھی تاہم ہمیں پاکستان کی جانب سے جنگ کے پیغامات مل رہے ہیں۔’
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے افغانستان میں ہوں تو اسلام آباد کا کیا ردعمل ہوگا؟
گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان صدر امید کررہے ہیں کہ اسلام آباد طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔
تاہم پیر کے روز آنے والے بیانات پاکستان کے خلاف اشرف غنی کے سخت ترین بیانات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کو ٹیلی فون پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کو اسی نظر سے دیکھے جیسے کہ وہ پاکستان میں دیکھتا ہے۔
خیال رہے کہ جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پاکستان میں آغاز ہوا تھا تاہم طالبان کے امیر ملاعمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور ملتوی کردیا گیا—