تہران ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق ایران میں اسکول کی بچیوں کو زہردے کر جان سے مارنے کی مجرمانہ کوشش کے سامنے آنے کے بعد حکام کی طرف سے خاموشی نے عوام میں مزید غم وغصے کی لہر دوڑا دی ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق منگل کے روز تہران کے صوبے میں درجنوں سکول کی طالبات کو زہردینے کا انکشاف کیا گیا جب کہ دوسرے ایرانی علاقوں میں ایسے ہی واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات کی ذمہ داری ایسے افراد سے منسوب کی گئی جو لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔

تسنیم خبر رساں ادارے نے کہا کہ “منگل کی دوپہر کے وقت صوبہ تہران میں واقع پردیس کے خیام گرلز اسکول میں اسکول کی ایک مخصوص تعداد کو زہر دے دیا گیا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق “اب تک 35 طالبات کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے اور صورتحال پر قابو پانے کے لیے اسکول میں ہنگامی طبی آلات لائے گئے ہیں۔ متاثرہ طالبات کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔

نومبر کے آخر سے ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ وسطی ایران کے مقدس شہر قم کے اسکولوں میں دس سال سے کم عمر کی سینکڑوں لڑکیوں کو زہر دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو تھوڑی دیر کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

ان میں سے کسی بھی طالبہ کی موت نہیں ہوئی لیکن درجنوں کو سانس کی تکلیف، متلی، چکر آنے اور تھکاوٹ کے باعث ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

ایران کے نائب وزیر صحت یونس پناہی نے 26 فروری کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمام سکول خاص طور پر لڑکیوں کے سکول بند کر دیے جائیں۔‘

اب تک اس ضمن میں سرکاری بیان میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل نے زہر دینے کے واقعات کی مجرمانہ تحقیقات شروع کی ہیں اور یہ کہ یہ ’دانستہ‘ طور پر کیا جانے والا عمل ہو سکتا ہے۔

وزارت صحت نے اتوار کو کہا کہ “کچھ افراد” اس کے ذریعے “تمام اسکولوں، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول” بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کیس نے ملک میں غم و غصے کو جنم دیا اور کچھ لوگوں نے اسکولوں میں بچیوں کو زہردیے جانے کی بڑھتی تعداد پر حکام کی خاموشی کی مذمت کی جو اس واقعے کے گواہ ہیں۔

ایران میں اسکول کی بچیوں کوزہردیے جانے کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران پہلے ہی گذشتہ برس 16 ستمبر کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ مظاہرے بھی ایک نوجوان لڑکی مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں مبینہ تشدد سے موت کے بعد شروع ہوئے ہیں۔ مہسا کو لباس کے سرکاری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا۔

سماجی کارکن ایران میں بچیوں کو زہر دینے کے واقعات کا موازنہ افغانستان میں طالبان اور مغربی افریقہ میں بوکو حرام کے جہادیوں سے کر رہے ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔

حکام نے زہر دینے کی وجہ کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری کا اعلان نہیں کیا۔

ایرانی شوریٰ کونسل کے سربراہ محمد باقر قالیباف نے منگل کے روز تصدیق کی کہ یہ ایک سوچی سمجھی کوشش ہوسکتی ہے جس میں قم اور بروجرد شہروں کی بچیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ایرانی رکن شوریٰ عبداللہ رحیمی نے وضاحت کی کہ قم اور بروجرد کے علاوہ جنوبی ایران کے شہر کفر میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

قم سے شوریٰ کے رکن احمد امیری فرحانی نے ان حملوں کو ایک “غیر معقول” فعل قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مقدس شہر کے باشندے “لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کرتے ہیں۔”

سابق نائب صدر معصومہ ابتکار نے حکام پر زور دیا کہ وہ اس مجرمانہ اور جنونی فعل کے مرتک عناصر کے خلاف فوری کارروائی کریں۔