تحریر: ھمل بلوچ   ھمگام آرٹیکل   “ابھی تک اور جینا تھا حیاتِ نا مساعد کا ابھی تک زہر پینا تھا”   میں مرنے کا کبھی قائل نہیں رہا ہوں، اس لئے نہیں کہ مجھے زندگی سے بے پناہ محبت رہی ہو، زندہ رہنا اپنے آپ میں ایک مصیبت ہے اور سبھی آگہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ زندہ رہ کر شعوری طور جد و جہد سے جڑے رہنا انہی مصائب کو دو چند کردیتا ہے، ویسے بھی زیست کی کھٹنائیاں اتنی بھی کم نہیں رہی ہیں کہ ہم زندگی کی دم بھرنے کو بے تاب رہتے پھریں، مقصد کی اپنی کچھ حقیقتیں ہوتی ہیں، مقصد ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ تادمِ آخر اگر کوئی سبیل نکل سکے تو جینا ہے، سب کچھ سہہ کر بھی جینا ہے، کبھی کبھار تو زندہ رہنا اتنا ضروری بن جاتا ہے کہ موضوعی حوالے سے عزتِ نفس کو داؤ پر لگا کر جینا پڑتا ہے مقصدیت کو دوام دینے کی خاطر، ذاتی محور کو محو کرکے جینا ہے، خود کو بھول کر جینا ہے، مقصد کے لئے جینا ہے، یعنی اگر مقصد داؤ پر ہو تو لڑنا ہے مرنا، مقصد کی تشریح کو خطرات ہوں تو کٹ کر مرنا ہے، فنا ہونے کو یہی کافی ہے کہ مقصد زندہ رہے، یعنی ہمارا لہو، پسینہ، محنت اور ذہنی کوفت سب کا ایک ہی حدف ہے اور اس حدف کو ہم مقصد کے نام سے جانتے ہیں. کبھی کبھی حالات کے ستم کے سایے میں مرنے کے لئے بھی زندہ رہنا پڑتا ہے، بسا اوقات زندگی کی ڈور کو موت کے سایے تلک لے جانے کے لئے زیست کی ڈور کو تھامے رہنا پڑتا ہے، ہمارے کچھ نا عاقبت اندیش دوستوں نے موت کو اتنا گلیمرائز کیا ہے کہ قربانی محض بہتی لہو کی دھارے کو ہی سمجھا گیا ہے اور اس سب جذباتی بہاؤ میں یہ حقیقت ہمیشہ سے نظرانداز رہی ہے کہ محض بہتا ہوا خون ہی تحریکی آبیاری کا ضامن نہیں ہوسکتا کبھی کبھار ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دشمن کے تمھیں ختم کرنے کے بسیار محنت کے سامنے بھی تمھیں جینا پڑتا ہے اور ایسے لمحوں میں جب دشمن تمھیں مارنے کو ایڑی چوٹی کی زور لگا رہا ہو اور تمھاری زندہ رہنے میں کامیاب ہونا ہی دشمن کی نفسیاتی شکست کا سامان کرنے کو کافی ہے بغیر کوئی جنگ لڑے، جس طرح سن زو نے کہا تھا کہ “To win one hundred victories in one hundred battles is not the acme of skill. To subdue the enemy without fighting is the acme of skill.” اس طویل خونی مسافت میں ہم نے دشمن کو نہیں بلکہ دشمن کے ارادوں کو شکست دینا ہے، اور اپنے ارادوں کو طول دیتے ہوئے زندہ رکھنا ہے، کیونکہ زندگی ہی جہد جہد کی علامت ہے.   ملا بھرام کی جد و جہد کو لفظوں میں بیان کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملا خود بھی زندہ رہنے کی اہمیت کو تسلیم کرچکے تھے، وہ موت کے سایے میں رہنے اور اس سے بغلگیر ہونے کو بھی تیار تھے، وہ وقت اور حالات کے غلام تھے، اور پچھلے پندرہ سالوں سے اجتماعی افق پر بسا کوتاہیوں کے باوجود ملا بھرام نہ صرف زندہ رہے بلکہ دشمن کے لئے کاری ضرب کا سامان بہم فراہم کرتے رہے، جنگی تدبیروں میں حالات کی حقیقت کے غلام ایک قدم اگے بڑھنے اور دو قدم پیچھے ہٹنے کو شکست نہیں بلکہ تدبیر مانتے ہیں اور یہی تدبیر زندگی کی علامت ہے اور زندگی تسلسل کی نشانی ہے اور تسلسل ہی جد و جہد کی کامیابی کا پہلا زینہ ہے.   ملا بھرام کا مقصد کیا تھا؟ ملا بھرام جیسے کئی ہم عصر (ہم کردار نہیں) لوگوں کی مقصدیت کے محلول میں ملاوٹ کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن ملا بھرام کا مقصدِ حیات محض ایک تھا بلوچستان کی تحریک آزادی کی جہد کو مضبوط اور ناقابل تسخیر خطوں پر استوار کرنا اور قابض پر جہاں اور جتنا ہو سکے کاری ضرب لگانا. اس طویل مسافت میں اپنوں اور غیروں کی بے رخی اور تند و تیز نشتر ملا بھرام کے وجود کو ہمہ وقت چبتے رہے، جد و جہد کو موضوعی خواہشات کے عوض رہن رکھنے کی ملا بھرام پر بے پناہ دباؤ قائم رہا لیکن وہ آخری دم تک ثابت قدم رہے اور یہی امتیازی وصف ملا بھرام کی مفارقت کی داغ کو دو بھر کرتا ہے، اسکی اپنی ماں، اپنے اہل و عیال کے لئے یہ جدائی بہرکیف تکلیف دہ ہوگی لیکن وہ اس بات پر نازاں بھی ہوتے ہونگے کہ موت بھی ایسی پائی کی سب رشک کرتے ہیں، اس سب کے بیچ قومی جد و جہد کی پگڈنڈیوں میں سرگرداں اس مقصد کا کیا، اس مقصد کے لئے ملا بھرام کا جانا ہر گز سود مند نہیں، انکی ماں انکی بے مثال جد و جہد کی انمٹ نقوش پر نازاں ہوسکتی ہیں لیکن تحریک میں شامل رہنماؤں کو اس بات پر فخر کرنے کے بجائے فکرمند ہونا چاہیے، اب اگر ملا بھرام کی ماں اور تحریک کے پالیسی ساز پرتوں پر براجمان لوگوں کے رویے یکساں رہیں تو اس میں ایک ماں کی اپنے بیٹے کے لئے جذبات اور ایک رہنما کی اجتماعی بلوچ تحریک کے حوالے سے سوچ و بچار کا معیار ایک جیسا کیونکر ہوسکتا ہے، کیونکہ جد و جہد میں ایسے لوگوں کا رستے میں دشمن کے ہاتھوں موت ہمارے لئے ناکامی اور دشمن کے لئے کامیابی کا سامان ہوتا ہے، عسکری و نفسیاتی دونوں محاذوں پر دشمن کی ایسی کامیابیاں اسے مزید باور کرواتی ہیں کہ وہ بلوچ قومی تحریک کے راہ میں رکاوٹ کا ہمہ وقت بند و بست کرسکتے ہیں، ویسے موت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن اس رستے موت کی حقیقت کچھ اور تیز ہوجاتی ہے کیوں کہ آپ دشمن کو اور دشمن تم کو ملیامیٹ کرنا چاہتا ہے، ملا بھرام نے جس طرح پندرہ سال سے اپنے آپ کو ساتھیوں سمیت سمبھالے رکھا اور جد و جہد کی الاؤ کو روشن رکھا وہ تدبر اور اولو العزمی میرے یا کسی اور کے تعریفی کلمات کا ہرگز محتاج نہیں لیکن ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اوپری سطح پر ایسے حادثات کو لے کر بجائے غور و فکر کرنے اور ایسے سانحات کی روک تھام کے ایک روایتی لکیر کو پیٹنا ہرگز دانش مندی نہیں ہوسکتی، ملا بھرام نے اپنے اس سفر میں اپنی وس و واک سے شاید کچھ زیادہ ہی کردار ادا کیا ہو اس سے کسی کو مفر نہیں لیکن جس طرف دیکھو تعریفی کلمات کی بہتات اور اس سیلِ رواں میں تعقل پسندی کہیں دب کر غائب ہوچکی ہے، کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کیوں ہوا، کیسے ہوا اور کس وجہ سے ہوا، کیونکہ اس سے پہلے بلوچستان کے طول و عرض میں ایسے حادثات یکسوئی اور یکساں طرزِ عمل سے رونما ہوتے آرہے ہیں، کیا ہر سانحے کو محض “تحریک آزادی کے راہ میں موت لازمی ہے” جیسی جذباتی سطروں سے پس پشت ڈالنا دانشمندی ہے. بلوچ آزادی کی تحریک میں شامل پارٹیوں اور لوگوں کو جب تک یہ ایک نقطہ سمجھ میں نہیں آتا کہ موت ناکامی ہے، کسی بھی صورت میں دشمن کا شکار بن جانا کچھ بھی خاکہ پیش کرے لیکن وہ ایک کامل ناکامی ہے، اور آج دشمن سے بچ کر کل کی ضرب کے لئے زندہ رہنا ہی کامیابی کی بہترین ضمانت ہے، ویسے تو ایک عام سپاہی کا بھی دشمن کے ہاتھوں مرجانا ناکامی ہے لیکن ملا بھرام جیسے کرداروں کا ایسے بچھڑ جانا یہی عندیہ دے رہا ہے کہ ابھی تک ہمارے آزادی پسندوں کے تزویراتی پالیسیوں اور حقائق کے درمیان ایک بہت بڑا خلیج حائل ہے اور اس خلیج کو جلد از جلد پاٹنے کی ضرورت ہے. بہر حال مرجانے کے اپنے نقصانات ہیں لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنے کے نقصانات انتہائی مہلک ہیں، “شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے” یہ ایک دل لبھانے والا نعرہ ضرور ہوسکتا ہے، عام ذہنیت کے بھیڑ چال کو اپیل ضرور کرسکتی ہے لیکن حقیقت میں موت اور متواتر موت قوم کے لئے ایک بھیانک نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ یہ مسافت نہ صرف طویل ہے بلکہ دشمن شاطر و طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی بساط پر بچھی شطرنج کا ایک قابلِ استعمال مہرہ بھی ہے.   جو لوگ اس نظریے کی حامی ہیں کہ اس راہ میں موت یقینی ہے، ویسے موت تو بہرحال یقینی ہے، بقولِ مرزا شوق لکھنوی   موت سے کس کو رستگاری ہے.. آج وہ، کل ہماری باری ہے..   موت ہر زی روح کو لازمی ہے، لیکن جہاں بچنا ہے، جہاں بچا جاسکتا ہے جہاں موت سے بھاگا جاسکتا ہے جہاں موت سے چھپا جاسکتا ہے جہاں ایک قدم پیچھے ہٹا جاسکتا ہے جہاں ترجیحات و تدابیر کو بدلا جاسکتا ہے ہر اس جگہ موت کو بحیثیت ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اسے نارملائز کرنا بے انتہا غیر دانشمندانہ ہے. منیر مومن کہتے ہیں کہ   زندگی ءِ ھبر گرگ لوٹیت.. نوکتریں رنگی ءَ مِرگ لوٹیت.. شپ داں دروازگاں شکار بہ کنت.. سرجنگ بیت، سرگرگ لوٹیت..   بحیثیت فلسفے کے ایک ادنیٰ طالب علم کے میں کسی بھی شئے یا واقعے کو اس کے اسباب و علل سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتا، جد و جہد کی راہ میں ہر موت ایک حادثہ ہے اور ہر حادثے کی اپنی علت و معلول ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا. کلی طور پر موت کو میں ناکامی تصور کرتا ہوں، اجتماعی و انفرادی دونوں حوالوں سے، آخری گولی کا فلسفہ ولولہ انگیز ضرور ہوسکتا ہے مگر ناقدانہ انداز میں سوچئے تو معلوم ہو کہ آخری گولی کی ضرورت کیونکر پیش آجاتی ہے، کیونکہ آپ دشمن کے حصار کو توڑ کر محفوظ راہیں تلاشنے میں ناکام رہتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بجائے آخری گولی کی فلسفے کو ترجیح دیتے ہیں، دشمن سے محفوظ رہ کر نکل جانے کی ناکامی آپکو ایک اور بڑی ناکامی و نامرادی (دشمن کے ہاتھوں گرفتاری) سے بچانے کے لئے موت کی طرف دھکیلتا ہے، اور یہ لازمی بھی ہوجاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ ایک ناکامی کی پیداوار “آخری گولی کا فلسفہ” آپکو ایک اور ناکامی سے بچا سکتا ہے لیکن دوسرے مرحلے کی ناکامی سے بچنے کے بعد ہم کیونکر پہلے مرحلے کی ناکامی کو بھول کر موت کو گلیمرائز اور نارملائز کرنا شروع کرتے ہیں، سمجھ نہیں آتا، اگر باریکی سے دیکھیں تو اس موت گلوریفائی کرنے کی بجائے اس ناکامی پر سوچیں جو آخری گولی کے فلسفے پر جاکر انت پاجاتا ہے، مجھے یہاں پر سنگت امیر الملک بے انتہا یاد آرہے ہیں اور ساتھ بابا خیر بجش کے شہید بالاچ بارے وہ کلمات بھی کہ ” زندہ رہتے، تکلیف میں رہتے سفر کررہے ہوتے جد و جہد کررہے ہوتے” یہاں خیر بخش تھوڑا گلوگیر ہوجاتے ہیں، کونسے جذبات کے دباؤ میں آکر، کچھ نہیں کہا جا سکتا، سنگت امیر الملک کے لئے میرے ایسے ہی ملے جلے جذبات ہیں کہ وہ اس کمسنی میں زندہ رہتے، بھاگ دوڑ کررہے ہوتے، برداشت کررہے ہوتے اور دوستوں کو سمبھال رہے ہوتے.   اگر پیمانہ گرفتاری اور موت میں سے انتخاب کا ہو تو آخری گولی کا فلسفہ بہترین انتخاب ہے لیکن اگر گرفتاری سے بچنے اور بچنے سے ناکامی کے بنا پر آخری گولی کے فلسفے کو پرکھیں تو ناکامی ہی ناکامی ہے، ملا بھرام جیسے باکردار نفوس لمحوں میں آتے ہیں اور دہائیوں تک جد و جہد کی آگ میں تپ کر کندن بننے کے عمل سے گزرتے ہیں تو تب کہیں جاکر اعتماد کا پرندہ انکے حوصلوں کے درخت پر آکر اپنا گھونسلہ بناتا ہے، ہر کسی پر اعتماد کا دیوی مہربان نہیں ہوسکتا، اعتماد کے اس درجے کو پانے کے لئے انتھک محنت، انتہا کی خلوص، اعلی ترین بردباری اور لوگوں کو جاننے اور سمجھنے کی تدبر درکار ہوتی اور یہ آمیزش ایک شخص میں خال خال ہی مل جاتی ہے اور اگر یہ آمیزش مل جائے تو وہ بندہ ایک کامل پیکیج بن جاتا ہے ملا بھرام کا جانا بھی اس لئے دل کو دوبھر کردیتا ہے کہ ملا بھرام اپنے ہم عصر ساتھیوں کے برعکس بلوچ تحریک آزادی کے لیے ایک کامل ترین پیکیج تھے، ملا بھرام موضوعی اعتبار سے ایک کامیاب کردار کے حوالے سے یاد رکھے جاسکتے ہیں لیکن جس طرح وہ اور ماضی قریب میں دیگر علاقوں میں ساتھیوں کا یکساں انداز اور بڑی تعداد میں نقصان ہوا اس پر بلوچ آزادی پسند قیادت کا محض چند تعریفی کلمات پر اکتفا کرنا لمحہِ فکریہ ہے ـ