ویب ڈیسک)انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یمن میں باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ہونے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں ’شہریوں کی ہلاکتوں کا ایک خونی سلسلہ‘ چل نکلا ہے۔واضح رہے کہ رواں سال 26 مارچ سے سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج کا یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملہ جاری ہے۔
اس جنگ میں ابھی تک چار ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے آدھے عام شہری ہیں۔ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’تمام فریق جنگی جرائم کے مرتکب ہیں۔‘اپنی 30 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایمنسٹی نے جون اور جولائی کے دوران ہونے والے آٹھ فضائی حملوں کا جائزہ لیا ہے جس میں 141 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان میں بیشتر خواتین اور بچے تھے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سکول، ایک بازار اور ایک مسجد پر ہونے والے حملے کے ساتھ ان حملوں میں کثیر آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنانے کا مزاج نظر آتا ہے۔
رپورٹ میں تعز اور عدن میں حوثی باغیوں کی جانب سے ہونے والے 30 حملوں کا بھی ذکر ہے.ایمنسٹی کی اہلکار ڈوناٹیلا روویرا نے کہا: ’رپورٹ میں بہیمانہ اور خونی موت کی دلخراش داستان رقم ہے۔ اس کے ساتھ تعز اور عدن پر ہونے والے ناجائز حملوں کی بربادی کی داستان بھی ہے۔ یہ تمام فریق کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب کے مترادف ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ شہریوں کو زمین پر دونوں جانب سے ہونے والی فائرنگ سے بچنے کے علاوہ سعودی اتحاد کی جانب سے ہونے والے فضائی حملے سے بھی بچنا ہے۔رپورٹ میں تعز اور عدن میں حوثی باغیوں کی جانب سے ہونے والے 30 حملوں کا بھی ذکر ہے۔روویرا نے بتایا کہ ’شہری آبادی کے تحفظ کو سراسر نظر انداز کرتے ہوئے‘ انھوں نے بھی گنجان آبادیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے ایک ’بین الاقوامی کمیشن‘ کے قیام کی بات کہی ہے جس کے تحت ان مبینہ جنگی جرائی کی جانچ ہو سکے۔حوثی باغیوں نے گذشتہ سال ستمبر میں صنعا پر قبضہ کرکے تقریبا ملک کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا تھا اور صدر منصور ہادی کو سعودی عرب بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔یمن کے انسانی بحران کو اقوام متحدہ نے آفت قرار دیا ہے جس میں دو کروڑ افراد یعنی کہ ملک کی 80 فی صد آبادی متاثر ہوئی ہے۔