سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeخبریںبی ایس ایف کی جانب بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے مسائل پر...

بی ایس ایف کی جانب بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے مسائل پر شائع کردہ پمفلٹ

کوئٹہ( ہمگام نیوز ) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ نے بلوچ عوام کے نام ایک پمفلٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں مصنوعی مسائل اور بلوچ نوجوانوں کے تعلیمی حقوق پر قدغن لگانے کی سازش کیا جا رہا ہے انہوں بلوچ عوام سے مخاطب ہو کر کہا

غیور بلوچ عوام!

1948 سے لیکر آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید ترقی یافتہ دور میں بلوچستان کے اندر ایسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں بنایا گیا جو بلوچ نوجوانوں کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرسکے۔ اس ترقی یافتہ دور میں دیگر اقوام ترقی کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں لیکن بد قسمتی سے بلوچ قوم کے نوجْوانوں کو تعلیم اور دیگر تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے، اس اکیسویں صدی کے اندر دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکا ہے، امریکہ، چائنا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ چاند اور مریخ پر آباد ہو رہے ہیں، اگر دوسری جانب ہم اپنے تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں پر نظر دوڑائیں تو ترقی کے میدان میں دنیا کے دیگر ممالک ہم سے 100 سال آگے نکل چکے ہیں، لیکن بلوچ قوم آج بھی دقیانوسی دور میں رہ کر انتہائی پسماندگی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی نظام کی تباہی اور نوجْوانوں کو علم وشعور سے دور رکھنے کیلئے قائم کردہ رکاوٹیں اور مصنوعی مسائل ہیں۔

باشعور بلوچ عوام!

اس وقت بلوچستان یونیورسٹی جو کہ بلوچستان کا سب سے بڑا اور پرانا تعلیمی ادارہ مانا جاتا ہے، تین سالوں سے اساتذہ اور دیگر ملازمین کو انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور بوقت انکے تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کرکے انہیں احتجاج کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ساحل وسائل سے مالا مال سرزمین بلوچستان کے سب سے بڑی تعلیمی ادارہ یعنی بلوچستان یونیورسٹی میں ایک کرپٹ وی سی تعینات کرکے ادارے کو مالی بحران کا شکار بنا کر تعلیمی سرگرمیوں میں خلل ڈالنا، ملازمین کو ترقی نہ دینا، وقت پر تنخواہوں کی عدم ادائیگی، طلباء کے ساتھ ناروا سلوک، یہ تمام مصنوعی مسائل ہیں جو نوجوانوں کی تعلیمی حقوق کو سلب کرنے کے زمرے میں آتے ہیں، حالانکہ کرپٹ وی سی کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس دائر کی گئی تھی لیکن ان کی کوئی جواب طلبی اور شنوائی نہیں ہوئی، عدلیہ اور اقتدار اعلیٰ کی پشت پناہی حاصل ہونے کے سبب کرپٹ وائس چانسلر نے بلوچستان یونیورسٹی کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک اور قابل غور بات ہے۔

عظیم بلوچ فرزندو!

سرزمین بلوچستان جہاں مختلف معدنیات اور وسائل موجود ہیں جن سے دیگر صوبے استفادہ حاصل کر رہے ہیں، لیکن یہاں کے مقامی لوگوں کو تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے، بلوچستان یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹیشن اور دیگر سہولیات کے نام پر کروڑوں روپے کی فنڈز لئے جاتے ہیں لیکن کوئٹہ بازار اور بروری میں رہائش پزیر طلباء و طالبات لوکل بسوں میں آکر مختلف مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اسکے علاوہ یونیورسٹی کے کینٹین اور میس میں فوڈ اتھارٹی اور پرائز کنٹرولر کی جانب فوڈ کوالٹی ٹیسٹ نہ کرنے اور ریٹ لسٹ نہ لگانے کی وجہ سے میس اور کینٹین میں نہ معیاری کھانے میسر ہیں بلکہ طلباء کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنے بڑے تعلیمی ادارے کے ہاسٹلز میں کمروں کی کمی کی وجہ سے 2021 سے اب تک تین بیچ کے طالب علم باہر کرایہ کے مکانوں میں رہائش پزیر ہیں، تعلیم جو اہم بنیادی حقوق میں سے ایک ہے، مالی بحران کے نام پر مصنوعی مسائل کھڑا کرکے بلوچ نوجْوانوں کے تعلیمی حقوق کو سلب کیا جا رہا ہے، بلوچستان میں اکا دکا چند تعلیمی ادارے ہیں، لیکن یہاں کے تعلیمی نظام کو ایک بزنس کا زریعہ بنا دیا گیا ہے، طلباء کے فیسوں میں بے تحاشا اضافہ، تعلیمی اسناد اور ڈگری کی وصولی کیلئے بھاری فیس اکٹھا کرنا کرپشن کی واضح ثبوت ہیں، تعلیمی اداروں کو کرپشن مافیہ، کرپٹ اور نااہل لوگوں سے چٹکارہ دلانے اور ایک منظم تعلیمی نظام کی بحالی کیلئے تمام نوجْوانوں اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مشترکہ طور پر ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

بلوچ نوجْوانو!

بلوچستان یونیورسٹی کے علاوہ تربت یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیمی نظام کو تباہ کرنے کیلئے ایسے پالیسی ترتیب دیئے گئے ہیں جہاں طلباء اور طالبات کو نام نہاد ڈسپلنری کمیٹی اور کرپٹ انتظامیہ کی جانب بلیک میل کرکے انہیں زہنی کوفت میں مبتلا کیا جا رہا ہے، یونیورسٹی کے فیسوں میں اس حد تک اضافہ کیا گیا ہے کہ غریب طلباء کی گنجائش سے باہر ہو کر وہ اپنے تعلیم کو ترک کرنے اور یونیورسٹی کو چھوڑنے پر مجبور ہیں، بلوچستان کے تمام تعلیمی نظام بالکل تباہ ہے، ایک سروے کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 18 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور 216 اسکول غیر فعال ہیں اور بہت سے تعلیمی اداروں میں منشیات کو فروغ دینے کیلئے انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ نوجْوانوں کو تعلیم سے دانستہ طور پر دور کرنے کی پالیسْیاں بنائی گئی ہیں۔

شعور یافتہ نوجْوانو!

ہمیں دیگر اقوام کا مقابلہ کرنے کیلئے تعلیمی نظام کو بہتر بنا کر قوم کو علم و شعور سے آراستہ کرکے نوجْوانوں کو اپنی قومی زمہ داریوں کا ادراک ہو کر انہیں بیدار ہونا ہوگا، ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کے راز انکی تعلیم و شعور میں پوشیدہ ہیں، ہماری پسماندگی اور بدحالی تب ختم ہوگی جب تعلیم کے میدان میں جہد مسلسل کے ساتھ وابستہ ہو کر سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہونگے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی بہتری تب ممکن ہوگا جب ہم نااہل، کرپٹ لوگوں کے خلاف آواز اٹھائیں گے،
بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ ایک زمہ دار طلباء تنظیم کی حیثیت سے بلوچستان کے غیور عوام سے اپیل کرتی ہے کہ نوجْوان نسل اور قوم کے مستقبل کو بچانے کیلئے ایسے نااہل، کرپشن مافیہ اور مسلط کردہ لوگوں کے خلاف آواز اٹھاکر تعلیمی اداروں کو بچانا ہوگا، کیونکہ جب تعلیم کے میدان میں ہمیں پسماندہ رکھا گیا تو تباہی اور زوال ہماری مقدر بن جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز