تحریر: پی کے بلوچ
ہمگام آرٹیکل
پاکستان اس وقت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستانی معیشت گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی سپورٹ کولیشن فنڈ پر منحصر رہا۔لیکن گزشتہ سال اگست میں امریکہ نے دو دہائیوں میں جاری افغانستان جنگ کو ختم کرکے اپنی راہ لے لی۔ براعظم ایشیاء سے امریکہ کی روانگی پاکستان کیلئے بڑی دھچکہ ثابت ہوئی۔واضح رہے پاکستان کئی عرصہ امریکن سپورٹ کولیشن فنڈ کی بدولت چلتا رہا۔ مزکورہ امداد اربوں ڈالروں کا حجم رکھتے تھے۔ بالآخر گزشتہ سال امریکہ کی روانگی پاکستان کیلئے نان شبینہ محتاجی کا سبب بن گئ۔امریکہ نے افغانستان سے اپنی انخلا سےقبل ہی پاکستان کیلئے کولیشن فنڈ سمیت ہر قسم کی امداد روک دی گئی۔ دریں اثناء پاکستان کو بلوچ قوم کی جانب سے دو دہائیوں سے گوریلہ جھڑپوں کا سامنا بھی ہے۔جوکہ مصنوعی پاکستان کی سلامتی کیلئے واضح چیلنج ہے۔اب چونکہ صورتحال یہ ہے۔کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کے کم ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے حالیہ رپورٹ کے تناظر میں پاکستان کے پاس ٹوٹل سوا چار ارب ڈالر موجود ہےجوکہ ایک ہفتہ امپورٹ کے برابر ہے۔ مگر پاکستان نے ان محدود رقم کو خرچ کرنا مکمل بند کر رکھا ہے۔اس لیئے تین ماہ سے اکثر مصنوعات کی ایل سی کھولنا بند ہے۔پاکستان کے زمہ داروں کو خدشہ ہے۔کہ اس محدود زرمبادلہ کو امپورٹ میں خرچ کیا گیا تو پاکستان اخلاقی طور تحلیل ہو جائے گی۔ ڈیفالٹ و ڈس ممبر سے بچنے کیلئے پاکستان گزشتہ چار ماہ سے قرض کی ایک قسط مبلغ: ایک ارب پچیس کروڑ ڈالر حاصل کرنے کی غرض سے آئی ایم ایف سے مسلسل منت و سماجت کر رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کو نازک ترین موڑ پر دیکھ ماہر معاشیات حیرانگی میں دوچار ہیں۔کہ پاکستان ایک ایک ارب ڈالر کی ادھار کیلئے سعودی عرب اور عرب امارات سے منت و سماجتوں میں لگا ہوا ہے۔ماہرین کا خیال ہے۔ کہ یہ ادھار کی امیدپر کیسے زندہ رہا جاسکتا ہے۔جبکہ پاکستان کے اپنے پاس ایکسپورٹ بالکل نا ہونے کے برابر ہے۔ ملکی اپنی کرنسی روپیہ امپورٹ کیلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔امپورٹ کیلئے یو ایس ڈالر درکار ہوتے ہیں۔جوکہ پاکستان کے پاس ناپید ہیں۔واضح رہے پاکستان معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی قسم کے مسائل میں مبتلہ ہے۔ ان مسائل میں سے ایک بڑی اور لاعلاج مرض ملک کے اندر اداروں میں شدید بدعنوانی بھی شامل ہے۔جس میں ملک کے اہم ادارے مبتلا ہیں۔ تمام اداروں کا ایک دوسرے سے زیادہ کرپشن میں مبتلا ہونا۔احتساب میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کے قابل نہیں رہے۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے۔اب پاکستان اپنی زوال کے عین دھانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے پاس ماسوائے دعاؤں کے کچھ نہیں رہا۔چار ماہ سے مسلسل امپورٹ بند ہونے کی وجہ سے ملک میں مصنوعات کی شدید قلت ہے۔ اور اس وجہ سے غریب عام لوگوں کو شدید مہنگائی کا سامنا ہے۔ اور حالت اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ریاست کے ستون اہم ادارے سے وابستہ اہم عہدے دار ایک دوسرے کو گالم گلوچ سے یاد کر رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کو دوبارہ پٹھڑی پر لانے کیلئے ذمہ داران نے کئی طریقے اپنانے کی کوشش کی۔ جس میں سے سن 2021 کو حکومتی نگرانی میں منشیات کے فصل کو اگانےپر اتفاق کیا گیا۔ جس پر مکمل عمل کرتے ہوئے پنجاب میں بیس ایکڑوں پر پوست کی کاشت کی گئی۔جو پکنے کے بعد کرپشن کا شکار ہو گئی۔اور خسارے پر چلی گئی جسے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے الٹا ملکی خزانے میں بےجا خرچ ہوا۔اور یہ پلان نا کام ثابت ہوئی۔ بعد ازاں گزشتہ سال سن 2022 کے آخر میں ایک فوجی جنرل کی مشورہ پر یہ فیصلہ کیا گیا۔کہ کراچی میں ایک مکمل رنڈی خانہ کھولا جائے۔
جس پر عمل کرتے ہوئے۔پاکستانی حکومت نے اپنے زیرنگرانی کراچی میں ایک بیرون ملک طرز کا عیاشی سنٹر کروڑوں روپے کی مالیت سے تیار کیا گیا۔ جہاں عمارت پر لگژری غسل خانے بھی بنائے گئے۔جس کو ملک کے امیر ترین لوگوں اور بیرونی سفیروں اور عورتوں کیلئے ایک رات بیس ڈالر ٹکٹ رکھ کر فل سیکیورٹی پر کام شروع کیا گیا۔دو رات گزر گئے تیسرے پر ملاملٹری کو پتہ چلا۔ملاملٹری نے شدید احتجاج کرکے اس کاروبار کو بھی خسارے کی نظر کردیا گیا۔جہاں ایک ڈالر بھی ہاتھ نہیں آیا اب ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ڈالر کمانے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ موجودہ وقت میں ماسوائے قرض لینے کے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔اور قرض دینے کیلئے بھی کوئی عالمی ادارہ یا ملک رضامندی ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ ماہر معاشیات کا کہنا ہے۔کہ پاکستان کو امپورٹ ، بیرونی ادائیگیوں اور سود ادا کرنے کیلئے آنے والے جون تک یعنی دو ماہ کے دوران بائیس ارب ڈالر درکار ہیں۔لیکن چین اور سعودی کی امانت میں دی گئی چھ ارب ڈالر سمیت کل ٹوٹلی چار ارب پندرہ کروڑ ڈالر سٹیٹ بینک کے پاس موجود ہیں۔ماہر معیشت اس مسلئے کو ڈسکس کرنے سے بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ان کا خیال ہے پاکستانی معیشت اس وقت نیوٹرل ہے۔