واشنگٹن ( ہمگام نیوز) امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن نے سوڈان میں جنگ بندی کے حوالے سے کئی مذاکرات کیے ہیں۔
اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوڈان میں امن فوج کی تعیناتی کا ابھی کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہم فی الحال سوڈان سے انخلاء پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
ان کے بیان سے ظاہر ہوتا ے کہ امریکہ کے پاس خرطوم میں اپنے سفارت خانے کی حفاظت کا منصوبہ ہے۔
جیک سلیوان نے مزید بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے سوڈانی بحران میں کسی بھی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر فوجی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔ سلیوان نے زور دے کر کہا کہ سوڈان میں تنازعہ کے دو فریق یعنی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔
اس سے قبل پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا تھا کہ امریکہ سوڈانی فوجی رہنماؤں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور ان پر جنگ بندی میں توسیع کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ سوڈان کی سفارتی اور قونصلر موجودگی کو جلد از جلد بحال کرنے کے لیے آپشنز تلاش کی جارہی ہے۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر فارس النور کے سیاسی مشیر نے کہا ہے کہ مذاکرات کی بات کرنے سے قبل جنگ بندی پہلی شرط ہے۔
میڈیا کو دیے گئے بیانات میں انھوں نے کہا کہ ہم لڑائیوں میں پیش رفت کے باوجود لوگوں کی خاطر جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریپڈ سپورٹ فورسز نے خود کو فوج کے متبادل کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ ہم فوج کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے عبدالفتاح البرہان کی سربراہی میں فوج اور محمد حمدان دقلو کی زیر قیادت ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان یہ لڑائی عمر البشیر کی معزولی کے چار سال بعد 15 اپریل کو خرطوم اور ملک کے دیگر حصوں میں شروع ہوئی تھی۔ عمر البشیر کی حکومت کو 2019 میں ایک عوامی بغاوت کے ذریعہ ختم کیا گیا تھا۔
لڑائی کے دونوں فریق تقریباً 3 سال تک اقتدار میں شریک رہے۔ تاہم حال ہی میں ایک سویلین حکومت بنانے اور ریپڈ سپورٹ فورسز کو مسلح افواج میں ضم کرنے کے منصوبے پر بات چیت کے دوران دونوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور بات لڑائی تک پہنچ گئی ہے۔