یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeآرٹیکلزامریکہ یا چین; پاکستان کیلئے درمیانی راستہ کوئی نہیں!

امریکہ یا چین; پاکستان کیلئے درمیانی راستہ کوئی نہیں!

      تحریر: حفیظ حسن آبادی

              ہمگام آرٹیکل

اس وقت پاکستان جس بدتریں سیاسی افراتفری،معاشی بدحالی اورعدالتی بحران کاشکار ہے اس کے کئی اندرونی وجوہات ہیں جس میں وہاں قومیتوں پر نوآبادیاتی طرز حکمرانی،حکمرانوں اور سرکاری عہدہ داروں کی بدعنوانیاں،فوج کی سیاست میں طویل و بلا شرکت غیرے مداخلت عدلیہ کاطاقتوروں کی پشت پناہی کی لمبی تاریخ،حکمرانوں اور مذہبی عناصر کا سیاسی مقاصد کیلئے مذہب کا بے دریغ و ناجائز استعمال اورافغان جہاد کے بہانے امریکہ کی مالی و ٹیکنیکل مدد سے لاتعداد مدارس کو انتہا پسند پیدا کرنے کے کارخانوں میں تبدیل کرنے جیسے درجنوں وجوہات شامل ہیں مگر اس وقت ان سب سے بڑھ کر مسلہ یہ ہے کہ پاکستان اس اہم بین القوامی صف بندیوں کے دہرائے پراس امتحان سے دوچارہے کہ وہ امریکہ یا چین کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ یادہانی لازم ہے کہ موجودہ عالمی سیاسی تناظرمیں امریکہ روس و چین کو ایک مشترک قوت کے طورپر دیکھتا ہے اس لئے ان دونوں میں سے کسی ایک سے قربت کو دونوں کوریلیف پہنچانے کے مترادف سمجھتا ہے۔

یوکرائن میں روس کے اسپیشل آپریشن کے بعد عالمی سیاست میں ایک بھونچال آچکی ہے امریکہ اور اس کے نیٹواتحادی دنیا میں روس اور چین کو تنہا کرنے اپنی تما م دستیاب وسائل،قوت و اثرورسوخ صرف کررہے ہیں لیکن اُن کیلئے مشکل یہ ہے کہ وہ ہندوستان،چین،جنوبی افریقہ، برازیل،یا سعودی عرب جیسے درجنوں ممالک پر حکم چلانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں اپنا رعب و دبدبہ دکھانے کی ضرور سکت رکھتے ہیں اور جو کچھ اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے وہ اسی خواہش کانتیجہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے نہ صرف روس اور چین کے خلاف واضع مخالفانہ رویہ اپنانے کا متمنی ہے بلکہ یہ کہ وہ افغانستان کو بھی عملی طور پر روس کے خلاف صف آراء دیکھنا چاہتا ہے جسکی زمہ داری  اُس (پاکستان)نے امریکہ طالبان دوحہ مذاکرات میں اٹھائی تھی اور امریکہ نے اُس کی ثالثی و گارنٹی پر پندرہ دن میں افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا تھا۔گو کہ افغانستان کے موجودہ حکمران،امریکہ اور پاکستان اس بات سے انکاری نظر آتے ہیں کہ اُن کا امریکہ کیساتھ کوئی خفیہ معاہدہ موجود ہے جس کی رو سے کابل میں اقتدار کی منتقلی ہوئی ہے مگر اُن کے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں کہ وہی طالبان جو بیس سالہ جنگ میں افغانستان کا ایک گاؤں تک پر قبضہ نہ کرسکے اچانک پندرہ دن میں پورا کا پورا ملک فتع کیا اور تین لاکھ کے قریب افغان فوج کہیں بھی باقاعدہ سرنڈر ہوئے بغیرکہاں غائب ہوگئی؟

چنانچہ حالیہ سیاسی و اقتصادی بحرانوں میں شدت کی وجہ بھی یہی ہے کہ امریکہ چاہتی ہے کہ پاکستانی فوج ادھر اُدھر کی باتیں چھوڑ کر براہ راست یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ وہ امریکہ یا چین کسی ایک کے ساتھ کھل کر کھڑا رہے۔ظاہر امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ ون چائنہ پالیسی، تائیوان، بحرہ جنوبی چین،ہانگ کانگ،سنکیانگ، تبت کے مسائل اور چینی ون ٹریلین ڈالر ون بیلٹ و ن روڈ منصوبے پر چین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے اور یوکرائن میں روس کے خلاف جنگ میں ہماری مکمل حمایت کا اعلان کرے۔

یہ بات امریکہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ جب تک وہ یوکرائن مسلے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بُری طرح الجھا ہے اس دؤراں روس اور چین اس ریجن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور وسیع پیمانے پرتوانائی کے وسائل تک رسائی کے کس ناقابل واپسی حد تک آگے جاسکتے ہیں۔ اور وہ اب شائد یہ بھی درک کرچکے ہوں گے کہ وہ روس اور چین کو روکنے جس جنگ کو چھیڑچکے ہیں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے بند گلی اور روس و چین کیلئے نئی شاہراہیں کھولنے کا سبب بن رہا ہے۔

امریکہ کی حواس باختگی و ہیجانی کیفیت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے ارباب اختیاراس مسلے کے گھمبیرہونے کا احساس تو رکھتے ہیں مگر اس کا حل اُنکے پاس نہیں اور وہ مسلہ اُن سے سنبھالا نہیں جارہا اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ یہ مشکل پاکستان یہاں سستے دستیاب پروکسیزکے زریعے اُ ن کیلئے حل کرنے مدد کرے۔

امریکہ پاکستان تعلقات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کو کسی بھی امریکی منصوبے پر کام کیلئے آمادہ کرنے ہمیشہ سے فوج ہی سے رابطہ کیا گیاہے اور فوج ہی نے اُنکی ساریں فرمائشیں پورے کئے ہیں جبکہ سیاستداں تو ہمیشہ فوج سے مراعات لیکر شوپیس کے طور پر استعمال ہونے لائن میں لگے رہے ہیں۔

آج بھی عمران خان ہوکہ شہباز شریف اس بڑی جنگ میں بالکل بھی مرکزی کردار نہیں کیونکہ اصل فیصلے اب بھی پاکستانی فوج کررہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی یہ حقیقت وہ بھی جانتے ہیں اور پاکستانی سنجیدہ طبقہ بھی جانتی ہے کہ امریکہ ہو کہ چین آج بھی فیصلہ کُن گفت و شنید کیلئے فوج کی گارنٹی یا یقین دہانی کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت کو حتمی قوت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔

 مگر اس بار پاکستان کا الجھن یہ ہے کہ نہ وہ امریکہ کو ناراض کر سکتاہے اور نہ امریکہ کی فرمائش پر چین سے تعلقات قطع کرنے کا سوچ سکتا ہے

یہی وجہ ہے پاکستانی جوڈیشری،فوج اور سیاستداں دو واضع گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ایک گروپ جوڈیشری کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر اس کوشش میں لگی ہے کہ ایسی حکومت آئے جو چین کے پاکستان میں تمام منصوبوں کو کسی نہ کسی طرح روکے جس کے بدلے امریکہ پہلے کی طرح مہرباں ہو گا اور ڈالرز آنا شروع ہوں گے۔جبکہ دوسرا گروہ جسمیں فوجی قیادت اور سیاستدانوں کا ایک گروپ پی ڈی ایم کی شکل میں شامل ہے کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح حسب سابق دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھیں اور کوئی اُنھیں کسی سے رابطہ رکھنے یا نہ رکھنے پر مجبور نہ کرسکے مگر وہ طویل مدت کیلئے ایسا کر نہیں سکتے کیونکہ وہ اپنی آزاد پالیسی کا حق اپنے ہاتھوں سے بیجنگ اور امریکہ میں ففٹی ففٹی کرکے گروی رکھ چکے ہیں۔

چین سے تعلقات میں پاکستان کو یہ مسلہ درپیش ہے کہ وہ اُس کیساتھ درجنوں ایسے معاہدات کرچکا ہے جنکی تفصیل فوج کے سوا کسی کے پاس بھی نہیں یہاں تک کہ سائندک پروجیکٹ اور سی پیک معاہدات بارے جو باتیں منظر عام پر آئی ہیں وہ عمومی اور بالکل سطحی ہیں۔اور تو اور بلوچستان جو سائندک اور سی پیک کا اصلی اور معتبر اسٹیک ہولڈرہے اُسکی عوام تو دور کی بات ہے اُس کے پارلیمنٹیرینز تک کو معاہدات کے تفصیلات کا علم نہیں۔

اسی طرح امریکہ کیساتھ پاکستان کے اتنے گہرے اور محرمانہ تعلقات ہیں کہ امریکہ پاکستان کو اپنا اسٹراٹیجک پارٹنر کہتا ہے اور پاکستان نے ہمیشہ امریکی مفادات کے دفاع کی خاطر چوکیدار کا کردار ادا کیا ہے۔تاہم یہ الگ بحث ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی صداقت کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے،ہدف تنقید بنایا ہے اور اُس پر انگلیاں اُٹھائی ہیں۔

 امریکہ پاکستان تعلقات میں تمامترناہمواریوں کے باوجود اس ریجن میں ہر مشکل وقت میں امریکہ نے پاکستان کی مالی مدد کی ہے، اُسے اسلحہ فراہم کرتا رہاہے، عالمی مالیاتی اداروں اور اپنے زیر اثر سرمایہ دار ممالک سے قرضہ دلاتا رہا ہے،اُس کے فوجیوں کی تربیت کرتا رہاہے مختصر یہ کہ ان دونوں کے تعلقات کی ”گہرائی“ بارے اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ یہاں بعض اوقات اہم حکومتی عہدوں پر کسی کو لانے یا ہٹانے پر بھی امریکہ کی رضامندی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے جس کا کسی آزاد ملک میں تصو ر بھی محال ہے۔

حرف آخر: جو بین القوامی صف بندیاں ہو رہی ہیں اُس میں امریکہ کی خواہش ہوگی کہ نہ صرف پاکستان وافغانستان میں بلکہ ریجن میں چین کے تمام منصوبے سردخانے کی نذر کئے  جائیں او ریہاں نہ صرف یہ کہ پاکستان روس سے کسی قسم کے تعلقات آگے نہ بڑھائے اور خاص کر اقتصادی تعلق تو بالکل بھی نہیں کہ جس سے اُس کا روس پر انحصار کے امکانات پیدا ہوں اور روس کے وہاں اپنے اثرات بڑھانے کی راہیں کھلیں۔بلکہ یہ کہ پاکستان انکے علاوہ افغانستان میں دوکاموں میں سے ایک کام ہر صورت میں انجام دے۔ پہلا یہ کہ پاکستان افغانستان کے زریعے سینٹرل ایشیا اور چین میں اسلامی انتہا پسندوں کو منظم کرکے میدان میں اُتارے جن کوہزاروں کی تعداد میں افغان جنگ کے بہانے امریکہ کی مالی و ٹیکنیکی مدد سے پاکستان اور امریکہ نے مل کر چالیس سال کے طویل عرصے میں بڑی جانفشانی سے تیار کی ہے تاکہ تائیوان میں کسی بھی بڑی کشیدگی سے قبل چین کیلئے ایک مشکل موجود ہو جس کو بہ وقت ضرورت اُبھارا جاسکے ٹھیک ایسے ہی سینٹرل ایشیا ممالک میں روس کو مصروف رکھنے گوریلہ جنگوں کا محاذ کھولا جائے دوسرا اور بہت ہی خطرناک و خونین منصوبہ یہ کہ اگر ایسا مشکل ہے تو افغانستان میں شدید خانہ جنگی پیدا کی جائے تاکہ افغانستان شورش و خانہ جنگی کے باعث اُس وقت تک سب کیلئے نوگو ایریا بنا رہے جب تک امریکہ یوکرائن کے مسلے سے فارغ ہو کر اس ریجن میں پہلے کی طرح تمام تر توجہ مبذول کرنے کی پوزیشن میں دوبارہ نہ آئے۔

پاکستان سے امریکہ کی ایسی خواہش کوئی نئی بات نہیں اور اُنکے تعلقات کے تناظر میں یہ معیوب بھی نہیں کیونکہ پاکستان ماضی میں امریکہ کیلئے سب کچھ کر چکا ہے مگر اب کے بارپاکستانی فوج اس  پوزیشن میں نہیں کہ امریکہ کے کہنے پر  ”جہاد“ کے چند فرنٹ کھول سکے کیونکہ وقت بدل گیا ہے اب نہ امریکہ پہلے کی طرح پیسہ پانی کی طرح بہانے کی طاقت رکھتاہے جو خود دیوالیہ ہونے کے کگھار پر کھڑی ہے اور نہ افغان سرحد کے دونوں طرف پہلے کی طرح کہیں اوریا آپس میں جنگ کیلئے بلا سوچے سمجھے ہتھیار اُٹھانے قائل کئے جاسکیں گے۔

موجودہ افغان قیادت میں ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جن کے بچے پاکستان میں ہیں یا اُنکا بزنس پاکستان یا پاکستانی پاسپورٹ سے مربوط ہے اور وہ پاکستان کی ناراضی مول نہیں سکتے ہیں مگر وہاں اُنکے مقابل ایسا مضبوط گروپ بھی موجود ہے جو اس دلیل کے ساتھ کھڑی ہے کہ ہم مزید کسی بھی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اُن میں ایسے خیالات رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں جو افغانستان میں تمام بدبختیوں کے لئے پاکستان کوموردالزام ٹھہراتے ہیں۔ایسے الگ الگ خیالات کی وجہ سے پاکستا ن اور امریکہ مل کر بھی نئی افغانستان حکومت سے سو فیصد وہ کام نہیں لے سکتے جسکی وہ اُنھیں اقتدار میں لانے سے پہلے توقع رکھتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے امریکہ کی نسبت چین کو امریکہ پاکستان تعلقات پر کوئی خاص تشویش نہیں یا کم از کم بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا۔اس تمام کشمکش کے باوجود اُس کا فوکس اپنے منصوبوں پر ہے۔

اس اطمنان کے دووجوہات ہو سکتے ہیں پہلے یہ کہ چین نے امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھے ہیں اور پاکستان کی طرف سے بھی مطمئن ہے کہ جو معاہدات اُس کے ساتھ دستخط ہوئے ہیں پاکستان اُنکی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا یا یہ کہ اُسے مکمل یقین ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا بُرا وقت چل رہا ہے اس لئے روس اور چین کے خلاف اُن کا ہرمنصوبہ ناکام ہی ہوگا اور یوکرائن میں جنگ کے خاتمے تک روس اُنکو ایسے نچوڑے گا کہ نہ وہ تائیوان میں چینی منصوبوں کے سامنے مزاحمت کی پوزیشن میں ہوں گے اور نہ سی پیک ونہ ون ٹریلین ڈالر منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کر سکیں گے لہذا وہ اطمنان سے اپنا توجہ اپنے اہداف پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔

جہاں تک پاکستان کے واضع پوزیشن لینے کا سوال ہے تو اس سے بظاہر ایسے لگتا ہے کہ عدلیہ اور عمران خان دونوں کا بخار بہت جلد مکمل طور پر اُتر جائے گا کیونکہ عدلیہ ہمیشہ فوج کے پیچھے رہی ہے اورسارے لیڈر بھی فوج کی نرسری سے نکل کر آئے ہیں کوئی ایوب خان کا بیٹابن کر اُبھرا ہے تو کوئی ضیاالحق،مشرف،پاشا وباجوہ کا لاڈلہ بن کر لیڈر بنا ہے اور ان سب کے کرئیر کے غروب میں ایک قد ر ہمیشہ مشترک رہی ہے کہ جب بھی انھیں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اپنی قابلیت سے عوامی لیڈر بن چکے ہیں اُن پر زوال آئی ہے اور فوج نے سر سے ہاتھ ہٹا اُ ن کو اُنکی اوقات یاددلائی ہے۔

عدلیہ بھی ہمیشہ فوجی ڈکٹیٹرز کے غیرقانونی اقدامات کو قانون کا ٹپہ لگا کر مخلوق پر مسلط کرچکی ہے اور جب بھی خود مختار اور سپریم ہونے کے زعم میں مبتلا رہی ہے اُس کے فیصلوں کو آئین سمیت کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر بے توقیر کیا گیا ہے۔

اس حساب سے یہ بات طے ہے کہ اس بار بھی مرضی فوج کی ہوگی اور چین سے مخالفانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب کیا جائے گا مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کی اس ”غیر جانبدار“پوزیشن کو قبول کرے گا؟غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اسکی اجازت نہیں دے گا۔چنانچہ اگرامریکہ کی دباؤ پر پاکستان سنکیانگ،افغانستان یا سینٹرل ایشیا میں کہیں بھی چینی مفادات کے سامنے رکاوٹ کے طور پر نظر آیا تو چین کا ردعمل امریکہ کی نسبت بہت جارحانہ اور غیرمتوقع ہوسکتا ہے۔امریکہ سے شدید اختلافات کی صورت میں پاکستان میں اگر افراتفری پھیل کر اپنے عروج پر پہنچتاہے تو امریکہ پاکستان کی چار کمزور رگوں پر ہاتھ دبائے گا پہلہ آزاد بلوچستان کے تحریک کا کھل کر حمایت کرے گا دوسرا اپنے اتحادیوں کیساتھ مل کراقوام متحدہ کے زریعے پاکستانی ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دے کر اُن کے پاکستان کے ہاتھ سے لینے کااہتمام کرنے کی راہ ہموار کرے گاتیسرا نہ صرف اسکی مالی امداد بند کرے گا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کو قرضہ دینے سے روکے گاچوتھااور سب سے آخر اور اہم بات یہ کہ پاکستانی تمام اختیارداروں نے جو برسوں سے اس ملک کو لوٹا ہے اُنکے پیسے مغربی ممالک کے بینکوں میں پڑے ہے اگر امریکہ روس کے عام لوگوں کے پیسوں کو مغربی ممالک میں منجمد کر سکتا ہے تو حکم عدولی پر پاکستانی حاکموں کے پیسوں کو بھی کرے گا۔پاکستانی حکمران اپنے ملک پر تمام بندشیں برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنے جیب پر یہ وار کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

جہاں تک چین کا سوال ہے وہ بھی اپنے ہاتھ میں دو تُرپ کے کارڈ رکھتا ہے پہلا اُس کا پاکستان کیساتھ درجنوں معاہدات ہیں جن کے پبلک ہونے سے پاکستان داخلی اور خارجی طورپر کتراتا ہے دوسرا اور غیر متوقع کارڈ آزاد بلوچستان کا ہے کیونکہ اس سلسلے میں دو باتیں بالکل واضع ہیں پہلا بلوچستان ہی سے پاکستان کی اہمیت ہے دوسرا بلوچوں کو پاکستان نے اس حد تک بیزار کیا ہے کہ پورا بلوچستان کب کا ایک بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس حقیقت کوچین سے بہتر کوئی نہیں جانتااوراُس کی دوستی بھی بلوچستان کے ساحل وسائل سے ہے اُسے اُن تک کوئی بھی رسائی دے اس سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یوکرائن اور روس کی جنگ طول پکڑگئی توکم از کم اس ریجن میں کوئی بھی نیوٹرل نہیں رہ سکے گا اور درجنوں میدان جنگ سجیں گے لیکن اس میں صرف اُ ن قوتوں کو کامیابی ملے گی جو جانتے ہیں انھیں کیا چائیے اور وہ اس کیلئے عملی طور پرمتحدجدوجہد کررہے ہیں جوقوتیں منتشر ہیں وہ رستے میں بکھرکر لتاڑے جائیں گے۔

 (ختم شُد)

یہ بھی پڑھیں

فیچرز