برلن(ہمگام نیوز) بحرانی علاقوں سے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی سب سے پسندیدہ منزل اِس وقت جرمنی خیال کی جا رہی ہے۔ اِسی مناسبت سے ہر گھنٹے میں ایک سو سے زائد غیر قانونی مہاجرین جرمنی میں داخل ہو رہے ہیں۔
جرمن پولیس کے مطابق جرمنی کے جنوبی شہر میونخ میں مشرقی یورپ سے آسٹریا کے راستے پناہ گزینوں سے بھری ہوئی ریل گاڑیاں پہنچ رہی ہیں۔ جرمن فیڈرل پولیس نے بتایا ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات سے غیر قانونی مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہے۔ ہر گھنٹے میں تقریباً 109 افراد کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ صرف منگل کے روز تین ہزار سات سو نو مہاجرین کی رجسٹریشن مکمل کی گئی۔ یہ حالیہ ہفتوں میں جرمنی پہنچنے والے غیرقانونی مہاجرین کی مجموعی تعداد سے دوگنا ہے۔
جنگ زدہ علاقوں سے فرار ہو کر یورپ پہنچنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے سے یورپ کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ ان افراد کا تعلق شام، عراق، اور لیبیا کے علاوہ بعض افریقی ملکوں سے بھی ہے۔ مختلف راستوں سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی پسندیدہ ترین منزل جرمنی سمجھی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ براعظم یورپ کی سب سے توانا اقتصادیات کا حامل ملک جرمنی ہی ہے۔
جرمنی میں رواں برس کے دوران سوا لاکھ سے زائد غیرقانونی مہاجرین کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد 57 ہزار تھی اور سن 2013 میں یہ محض 26 ہزار تھی۔ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ جرمنی کو اِس سال کے اختتام تک آٹھ لاکھ تارکین وطن کی درخواستیں موصول ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے سیاسی حلقے اِن مہاجرین کی آمد سے نالاں ہیں۔
اُدھر ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر پولیس نے ایسے سینکڑوں تارکین وطن کو روک رکھا ہے، جو آگے جرمنی اور دوسرے مغربی یورپی ملکوں کی جانب روانہ ہونا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز سینکڑوں تارکین وطن کو جرمنی اور آسٹریا جانے والی ٹرینوں پر سوار ہونے کی اجازت دینے کے بعد ہنگری کی پولیس نے منگل کی شام بوڈاپیسٹ کا مرکزی ریلوے اسٹیشن بند کر دیا تھا۔ ہنگری نے یہ بھی کہا ہے کہ وہاں پہنچنے والے مہاجرین کی پہلے رجسٹریشن کی جائے گی۔
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں نئے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں، جن سے اس بحران کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم برائے امیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق رواں برس ابھی تک کشتیوں کے ذریعے بحیرہٴ روم کے راستے تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد افراد یورپ پہنچ چکے ہیں۔